’’اصحاب صفہ‘‘ صحابہ کرام کی ایک مخصوص جماعت کے لیے استعمال ہونے والی ایک معروف اصطلاح ہے ۔ اِس سے صحابہ کرام کا وہ گروہ مراد ہے جو ذاتی گھر نہ ہونے کے باعث مسجد نبوی کے شمال مشرقی جانب میں مٹی کے ایک سائبان تنے چبوترے ‘جسے عربی زبان میں ’صفہ‘ کہا جاتا ہے ‘ پر مقیم تھااور رات دن تعلیم و تربیت حاصل کرنے میں مگن رہتا تھا۔صفہ صرف ایک چبوترہ نہ تھا بلکہ صحابہ کرام کے لیے دینی درس گاہ اور روحانی تربیت گاہ تھا۔ یہاں انہیں تعلق باللہ، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مادیت پرستی سے کنارہ کشی، فکرِ آخرت ، خود داری و قناعت ، دانائی و حکمت اور میانہ روی و سادگی کے ساتھ ساتھ خلافت ارضی کا کاروبار سنبھالنے کے لیے کتاب اللہ اور سنت نبوی کی صورت میں آئین جہاں داری کی بھی بھرپور تربیت دی جاتی۔ اہل بیت کرام کے بعد اصحاب صفہ حضور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ترین لوگوں میں شامل تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پڑوسی تھے اوروہ آپ کے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اپنے کھانے میں شریک فرماتے ، اگر آپ کے کاشانہ اقدس پہ کھانے کو کچھ نہ ہوتا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل خانہ سے بھی بڑھ کر ان کے لیے فکر مند ہوتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود انہیں دین کی تعلیم دیتے ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اصحاب صفہ میں صرف مذکورہ بالا لوگ ہی شامل نہ تھے بلکہ ان میں ایک معتد بہ تعداد ایسے انصار صحابہ کرام کی بھی تھی جنہوں نے ذاتی گھر اوروافر سہولیات میسر ہونے کے باوجود صفہ میں فقط اس لیے رہائش اختیار کر رکھی تھی کہ اس طرح انہیں صحبت نبویﷺ سے فیض یاب ہونے کا زیادہ سے زیادہ موقع ملے گا۔ ایسے صحابہ کرام میں حضرت کعب بن مالک ، غسیل الملائکۃ حضرت حنظلہ اور حضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں قیام کے دوران صحبت نبویﷺ کی برکت کے باعث انہیں تعلیم و تربیت کے وہ قیمتی موتی میسر آتے جو انہیں کہیں سے بھی حاصل نہیں ہو سکتے تھے ۔ جب مکۃ المکرمہ سے مدینہ عالیہ ہجرت کرنے والے صحابہ کرام ؓکی تعداد میں اضافہ ہو گیا تو جس مہاجر صحابیؓ کو سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہ ہوتی رسول کریم ،خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اپنی مسجد کے کونے میں واقع اس چبوترے پر رہنے کے لیے جگہ عطا فرماتے ۔اصحاب صفہ کی تعداد متعین نہ تھی بلکہ اس میں وقتاً فوقتاً کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ جب نئے وفود کی صورت میں متلاشیان حق حاضر ہوتے تو تعداد بڑھ جاتی اور جب ان میں سے کچھ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے بعد دعوت و تبلیغ اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے روانہ ہو جاتے تو ان کی تعداد کم ہو جاتی۔ یہ تعداد بعض روایات میں 70اور بعض میں اس سے زیادہ بیان ہوئی ہے ۔ اصح قول یہ ہے کہ قیصر و کسری کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کرنے والے ان چٹائی نشینوں کی تعداد 400کے لگ بھگ تھی۔ اب ایک نظر نگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مستفید ہونے والے ان جید صحابہ کرام کی علمی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں۔ (۱) جمع القرآن: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد ہمایوں میں جب مختلف اجزاء و اشیاء پر لکھے ہوئے قرآن حکیم کو یک جا کرنے کی عظیم و حساس ذمے داری سپرد کرنے کا موقع آیا تو شیخین کریمین رضی اللہ عنہما نے اس کام کے لیے جس صحابی کا انتخاب کیا وہ اصحاب صفہ کی فارغ التحصیل نام ور شخصیت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مبارک دور میں انہیں لغت قریش پر قرآن حکیم جمع کرنے کے لیے جس صحابی نے تیار کیا وہ حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ ہیں اور اِن کا تعلق بھی اصحاب صفہ کی قدسی صفت جماعت سے ہے ۔ (۲) روایت حدیث: اسی طرح اگر حدیث نبویﷺ کی خدمت کے میدان میں دیکھا جائے تو وہ تین صحابہؓ جن سے سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں ، وہ اصحاب صفہ میں سے ہیں۔ ان میں سے ایک عظیم نام حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہے جن سے کم و بیش 800 صحابہ و تابعین نے حدیث کا علم حاصل کیا ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ دین کے بہت بڑے حصے کوبصورت حدیث امت تک پہنچانے میں اصحاب صفہ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ویسے تواصحاب صفہ کی علمی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے لیکن اختصار کے پیش نظر ہم نے صرف دو پہلوئوں سے جائزہ لیا ہے ۔علمی خدمات کی طرح اصحاب صفہ کی عملی خدمات بھی بہت شان دار اور اپنی مثال آپ ہیں ۔ صفہ سے فیض یاب صحابہ کرام ؓکی مقدس زندگیوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ انہوں نے دنیا کے ہر شعبے میں قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔اصحاب صفہ کے فضلاء میں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بحرین کے والی ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے امیر ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے قاضی و وزیر ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یمن کے قاضی و معلم، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے دمشق کے قاضی، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مدائن کے والی اور حضرت ابن القرت رضی اللہ عنہ نے حمص کے گورنر کی حیثیت سے دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ نیز یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اصحاب صفہ میں سے اکثر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی خدمات جلیلہ کے باعث القابات سے نوازا، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کو امت کا سب سے بڑا قرآن دان، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو امت کا سب سے بڑا حکمت دان ، عشرہ مبشرہ میں شامل حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کوامت کا امین ، حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کو اپنا راز دان ، حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو امت کا سب سے بڑا زاہد اور حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو غسیل الملائکۃ قرار دیا۔’’رضی اللہ عنہم اجمعین و ارضاہم عنا‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس مقدس جماعت کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق دے ۔ آمین انقرہ (این این آئی)جرمن میڈیا نے کہا ہے کہ