اسلام آباد (خبر نگار)سپریم کورٹ نے ایکٹ 2010اور آرڈیننس کے تحت بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کی الگ الگ فہرستیں اٹارنی جنرل سے طلب کرلی ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے برطرف ملازمین کی بحالی کے ایکٹ کو کالعدم کرنے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی جو ملازمین ایکٹ کے تحت بحال ہوئے اور جو آرڈیننس کے تحت، ان کی الگ الگ فہرستیں مرتب کرکے جمع کریں۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے بحال ہونے والے ملازمین کی الگ فہرست بنانے کی بھی ہدایت کی جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی کہ کوشش تھی اس ہفتے سماعت مکمل کر لیتے ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جو ملازمین آرڈیننس کے تحت بحال ہوئے ان کے وکلا آج جمعرات ا ور اٹارنی جنرل پیر کو حتمی دلائل دیں گے ۔لطیف کھوسہ نے ججوں کی بحالی کے بارے میں بات کی تو جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا ججوں کی بحالی کے باب کو نہ کھولیں تو بہتر ہے ۔سوئی نادرن گیس اور سٹیٹ لائف کے برطرف ملازمین کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ پیپلزپارٹی حکومت ختم ہوتے ہی بھرتی ہونے والے ملازمین نکالے جاتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ خلاف قانون برطرفیاں 1947 سے ہو رہی ہونگی،صرف ان چند ملازمین کو ہی کیوں بحال کیا گیا ، عدالتی فیصلے کیخلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی، عدالت کسی کو سزا دے تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی سے اسے بری کر سکتی ہے ؟ عدالتی فیصلوں کیخلاف قانون سازی ہونے لگے تو عدلیہ کی آزادی کہاں رہے گی؟اسی انداز میں چلنا ہے تو آج تک جتنے لوگ نکالے گئے سب کو بحال کریں،عدالتی فیصلوں کی موجودگی میں 11 سال بعد قانون لا کر گھر بیٹھے لوگوں کو بحال کر دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، ایکٹ میں لکھا ہے جن کے خلاف عدالتی فیصلے آئے وہ بھی ملازمت پر بحال تصور ہونگے ۔ ادھر سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن(ر) صفدر کے اہل خانہ اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) اعجاز افضل خان کے بھائی کے درمیان زمین کے تنازع اور لڑائی کا معاملہ ایبٹ آباد کی سیشن کورٹ کو منتقل کر دیا ۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ضمانت قبل از گرفتاری اور ایف آئی آر کے خاتمے کے مقدمات ایبٹ آباد سیشن کورٹ کو منتقل کرتے ہوئے متعلقہ عدالت کو جلد کیس نمٹانے کی ہدایت کی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ انصاف کے نظام کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں، آپ کو علم ہے منڈی بہاوالدین میں جج کے ساتھ کیا ہوا،کیا ایسے واقعات پر صرف عدلیہ ایکشن لے ،ریاست کی پھر کیا ذمہ داری ہے ۔