بولے تو لفظ باعثِ الزام ہو گئے ہم چپ رہے تو اور بھی بدنام ہو گئے چاہت کے چار حرف محبت میں گم ہوئے ہم دل کو پاس رکھنے میں ناکام ہو گئے کیا کریں لوگ کسی بھی حالت میں جینے نہیں دیتے۔ کسی غلط بات پر جواب آں غزل کہہ دیں تو گستاخ گردانے جاتے ہیں اور کسی کی گستاخی پر چپ رہیں تو کہتے ہیں اب بھیگی بلی کیوں بن گئے! یہ رنگ بھی سارے آنکھوں کے ہوتے ہیں ورنہ رنگوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو لوگ کلر بلائنڈ نہ ہوں۔ یگانہ نے بھی تو کہہ دیا تھا کہ ’’علم کیا علم کی حقیقت کیا۔ جیسی جس کے گمان میں آئی‘‘ اگر تصرف کروں تو کہہ دوں کہ ’’بات کیا بات کی حقیقت کیا۔جیسی جس کی زبان پر آئی‘‘ حرف آخر تو کچھ نہیں‘ زاویہ نگاہ کی بات بھی ہے کہ اسے نقطہ نظر کہنا چاہیے وگرنہ تبدیل ہونا ناممکن ہو گا۔ پتہ نہیں میں کیا کچھ لکھتا جا رہا ہوں اور دماغ میں یہی سمائی ہے کہ ’’میری مرضی‘‘ ابھی میں جیدی کی ایک غزل سن رہا تھا کہ مزاح کے باوجود اس میں شعریت تھی: میں جلد بازی میں کوٹ گھر سے پہن کے نکلا اب آ رہا ہوں کہ جا رہا ہوں یہ میری مرضی مرضی کی بات پر کوئی کہنے لگا کہ مرضی تو صرف درزی کی ہے۔ اس پر مجھے نہایت دلچسپ واقعہ یاد آیا کہ میں پاکستان اور بھارت کا میچ دیکھنے قذافی سٹیڈیم گیا۔ یہی میچ تھا جس میں ڈکی برڈ نے ایک غلط آئوٹ دے کر ہمیں آئوٹ کر دیا تھا۔ خیر بات میں کر رہا تھا میری مرضی کی کہ وہاں کرائوڈ میں جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے۔ ایک نوجوان جین کی پینٹ الٹی پہن کر آیا تو سب ہنس پڑے۔ کسی نے اس نوجوان کی توجہ پینٹ کی طرف دلائی کہ شاید وہ جلدی میں یہ حرکت کر آیا ہو۔ اس نوجوان نے پلٹ کر جواب دیا’’مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں کوئی اندھا ہوں یہ پینٹ الٹی میں نے اپنی مرضی سے پہنی ہے۔ کیا آپ کو کوئی تکلیف ہے‘ کیا یہ تمہاری پینٹ ہے۔ میری پینٹ میری مرضی۔ یعنی میں اپنی مرضی کا آپ مالک ۔ میں منہ پہ چاہے لگا لوں کالک۔ یہ تو بلکہ شعر ہو گیا۔ شعر سے مجھے یاد آیا کہ کل میں نے ایک خاتون سے کہا کہ آپ کی غزل میں سقم ہیں۔ کہنے لگی وہ کیا ہوتے ہیں۔ میں نے کہا نقائص۔ کچھ اشعار خارج از بحر ہیں۔ کہنے لگی میں نے تو یہ غزل بڑی لہر بحر میں کہی ہے۔ ویسے بائی دا وے یہ غزل میری ہے’’میری غزل میری مرضی‘‘ مجھے ایک تقریب یاد آئی کہ جہاں ایک مشاعرہ کی غزل پر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی نے یوں داد دی کہ یہ غزل ’’بحر بے کراں‘‘ میں کہی گئی ہے۔ یعنی جس کی موجوں کے راستے میں سب کچھ تہس نہس ہو جاتا ہے۔ ویسے میری مرضی والی بات میں خود غرضی زیادہ ہے۔ اگر ہر شخص میری مرضی پر کاربند ہو جائے تو دوسرے کی مرضی تو بالکل فوت ہو جائے گی۔ تہذیب تو یہ کہتی ہے کہ ’’جناب جو آپ کی مرضی‘‘ یہ کس قدر خوبصورت بات ہے کہ مرضی دوسرے پر ڈال دی جائے۔ دوسرا لامحالہ آپ کا خیال رکھے گا۔ یہی اچھا لگتا ہے: تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب تہذیب اس کی دیکھنا آداب دیکھنا یہ محبت کا ایک انداز ہے اور حسن بھی: تُورُ کے یا نہ رُکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دیے ہیں تری آسانی کو یہ مرضی اصل میں ان لوگوں کی خواہش ہے جو حکومت کرنا چاہیے ہیں۔ وہ تھوڑے تھوڑے خودسر بھی ہوتے ہیں اور ضدی بھی۔ جو ہر کام میں اپنی مرضی کرتے ہیں وہ ٹھوکریں بھی کھاتے ہیں۔ ایک مرضی تو اس عمل میں بھی جس میں کہا جاتا ہے کہ ’’میاں بیوی راضی تے کہہ کرے گا قاضی‘‘ مگر یہاں میاں بیوی کی قید ضروری ہے۔ویسے قید تو میاں ہی ہوتا ہے۔ مرضی بیوی کی چلتی ہے۔ خاص طور پر جب بچے ہو جاتے ہیں تو یہ بیوی کی پارٹی بن جاتے ہیں اور پھر میاں کی مرضی فشوں۔ آپ یقینا حیران ہو رہے ہونگے کہ آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں اور یہ لکھ کیا رہا ہوں۔ اگر مجھے علم ہوتا تو میں ایسا کیوں کرتا۔ میں بھی اگر بھیڑ چال میں کہہ دوں کہ میرا کالم میری مرضی تو آپ لاجواب ہو جائیں گے۔ مگر میں تو اپنے قارئین کی مرضی کا خیال رکھتا ہوں۔ ویسے کالم نگار کی کوئی مرضی نہیں ہوتی‘ مرضی چھاپنے والوں کی ہوتی ہے۔ کیا یہ کمال کی بات نہیں کہ شیطان نے سب سے پہلے اللہ کو جواب دیا کہ اس کی مرضی وہ آدم کو سجدہ نہیں کرے گا۔ پھر مرضی تو اللہ کی چلی۔ شیطان کو دھتکار دیا گیا مگر وہ جاتے جاتے ہمارا کام تو کر گیا اور جنت سے نکالے گئے۔ اس لئے کہ اللہ کی مرضی تھی کہ ہم ممنوعہ پھل نہ کھائیں۔ ہم نے شیطان کی مرضی اپنائی۔ اس کی مرضی کو اپنی مرضی بنایا اور پھر ہم بھی زمین پر اتار دیے گئے۔ اقبال بھی حیران تھے اور کہا کہ ’’اسے انکار کی جرات ہوئی کیونکہ‘ راز داں تو وہ اللہ کا تھا۔ جو بھی ہے تب سے شیطان اپنا رسوخ اور اپنی مرضی استعمال کر رہا ہے مگر ہمیں تو توبہ کی گنجائش مل گئی۔ مگر ہم یہاں بھی ممنوعہ پھل کی طرف لپکتے ہیں کہ شیطان نے اسے بیان کر کے ہمیں ترغیب دے رکھی ہے۔ اس کی بات کو قبول کرنے کی جبلت تو ہم میں بھی ہے۔ بس اس پر قابو پانا مشکل ہے کہ ہم اس پر اپنی مرضی سے قابو نہیں پا سکتے۔ یہاں تو خود سپردگی چلے گی: سلام ان پہ تہہ تیغ بھی جنہوں نے کہا جو تیری مرضی‘ جو تیری رضا جو تو چاہے ویسے مرضی تو سب کی ہوتی ہے اور سب کو اپنی مرضی عزیز ہوتی ہے مگر سب کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ آپ چور ڈاکو کو کیا اپنی مرضی پر سب کچھ کرنے دیں گے۔ آپ عام آدمی کو اپنی مرضی سے قانون توڑنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔، کوئی کہے کہ میری گاڑی میری مرضی، جیسے مرضی چلائوں۔ آپ کی مرضی کو قوانین اور معاشرہ کنٹرول کرتا ہے۔ مرضی تو بچے کی بھی ہوتی ہے اگر اس کی مرضی مان لی جائے تو وہ کبھی سکول نہ جائے۔ کبھی کڑوی دوائی نہ پیے۔ وہ نہیں بھی پیتا تو اس کی مرضی کے خلاف اسے پلانا پڑتی ہے کہ یہ اس کے لئے مفید ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کس طرح بچپن میں ہمیں روتے ہوئے۔ نیم کا پانی پلایا جاتا تھا۔ بہرحال کہیں نہ کہیں آپ کی مرضی کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل بات ہے طاقت کا صحیح استعمال۔ طاقت بھی اپنی مرضی سے استعمال نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے کوئی قانون اور ضابطہ ہے۔ صرف عورت نہیں مرد کو بھی اپنی مرضی پر ضد نہیں کرنی چاہیے۔ ہر کام سے پہلے اس کا جواز ضروری ہے۔ جیدی کی طرح کوئی بھی کہہ سکتا’’میں رو رہا ہوں کہ گا رہا ہوں تو میری مرضی‘‘ میں تجھ کو یونہی ستا رہا ہوں تو میری مرضی‘ جو بھی ہے اپنی مرضی سے کالم بھی زیادہ نہیں بڑھایا جا سکتا۔دو شعروں کے ساتھ اجازت: مجھ کو اچھی نہیں لگتیں یہ شعوری باتیں ہائے بچپن کا زمانہ وہ ادھوری باتیں تجھ سے ملنا بھی بہت کام ہوا کرتا تھا روز ہوتی تھیں ترے ساتھ ضروری باتیں