آئے روز نیب کوئی کارروائی کرتا ہے کہ پورے ملک میں ایک سنسنی سی پھیل جاتی ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پورے ملک سے مراد صرف ہائی پروفائل سیاستدانوں کا ایک ٹولہ ہے۔ ورنہ پورے ملک میں تو پینتالیس چالیس فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے کی اذیت آپ ہم کیا جانیں یہ تو وہ وہی اللہ کی مخلوق بتا سکتی ہے جو ایک وقت کی روٹی بمشکل کھا کر دوسرے وقت کے پیٹ بھرنے کے بندوبست میں لگ جاتی ہے۔ بیماری میں دوا ‘ دارو کرنا ان کے لئے کسی لگژری سے کم نہیں ہوتا۔ ورنہ اس طبقے کے مجبور پاکستانی‘ اپنے اندر کئی بیماریاں لیے زندگی کے جبر مسلسل سے گزرتے رہتے یا پھر بیماری نے زیادہ تنگ کیا تو کسی سرکاری ہسپتال میں جا کر ذلت اور خواری کی کئی راہداریوں سے گزر کر کوئی ایک آدھ دوا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ بھی ایسے خوش قسمتی اگر ساتھ دے تو سرکاری ہسپتالوں سے دوا مفت ملے گی ورنہ یہاں تو مفت دوائوں کا سٹاک ہمیشہ ہی شفاخانوں میں ختم ہوا رہتا ہے۔ تو صاحبو! ایسے خط غربت سے نیچے بسنے والے ہوں یا پھر اس منحوس غربت کے خط سے ذرا سا اوپر زندگی بسر کرنے والے ‘ میرے عظیم ہم وطن ہوں۔ ان کو نیب کی ایسی ہائی پروفائل گرفتاریوںاور پکڑ دھکڑ سے کیا فرق پڑتا ہے ان کی غربت زدہ ناقص عقلوں میں کروڑوں‘ اربوں تو کیا لاکھوں کی باتیں بھی سمجھ نہیں آتیں۔ انہیں کیا خبر کہ آمدن سے زائد اثاثے کس بلا کا نام ہیں اور یہ کیسے حاصل ہو جاتے ہیں جبکہ خداکی زمین پر دن رات مشقت کر کر کے۔ وہ تو محض مشکل سے دو وقت کی روٹی اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کما سکتے ہیں۔ سو نیب کی ایسی سنسنی خیز گرفتاریوں سے صرف جمہوریت کا مستقبل خطرے میں پڑتا ہے۔ یا پھر ان سیاستدانوں کا جو اپنے مفاد اور غرض کے دائرے میں سیاست کرتے ہوئے اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ بیرون ملک اور اندرون ملک جائیدادیں بناتے ہیں۔ جن کی زمینیں اور کارخانے اس قدر تیزی سے انڈے بچے دیتے چلے جاتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اثاثے آمدن سے زائد کی فہرست میں چلے جاتے ہیں۔ تازہ ترین کارروائی میں نیب نے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو دھر لیا ہے۔ سپیکر سندھ اسمبلی کو جس طرح اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس پر پیپلز پارٹی کا صدائے احتجاج بلند کرنا بنتا بھی تھا اور ایسے احتجاج میں یہی واویلا کیا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ دراصل یہ وہ جمہوریت ہے جو ایسے سیاستدانوں کے ہر کرتوت کو اپنے پروں میں ڈھانپ لیتی ہے۔ اور ملک کا کوئی قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ سو جب بھی سیاستدانوں کی یہ والی جمہوریت خطرے سے دو چار ہوتی ہے وہ اکٹھے ہو کر اس کو بچانے کا عزم کرتے ہیں کیونکہ وہ نظام جو طاقتور کے ہر جرم کو پروٹیکٹ کرتا ہے اس کے بچانے میں بھی ایسے مفاد پرست سیاستدانوں کی بقا وابستہ ہے۔ آج قومی اسمبلی کے سیشن میں اپوزیشن نے آغا سراج درانی کی گرفتاری پر خوب ہنگامہ ہوا۔ یہ احتجاج دراصل گرفتار ہونے والے سے زیادہ اپنے بچائو کے لئے کیا جا رہا ہوتا ہے۔ جب کسی ہائی پروفائل بدعنوان سیاستدان پر قانون کا ہاتھ پڑتا ہے باقی سب کو اپنی سلامتی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے ہمارے ہاں یقینا دیانتدار،مالی کرپشن سے پاک‘ شریف النفس سیاستدان موجود ہیں لیکن اس نظام میں ان کی مقدار آٹے میں نمک کے برابر ہے۔جس روز یہ تناسب برعکس ہوا یعنی دیانتدار سیاستدانوں میں کرپٹ سیاستدانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی۔ سمجھیں وہی وقت اس تبدیل شدہ پاکستان کا پہلا دن ہو گا جس کا خواب پاکستانیوں کو دکھایا گیا ہے۔ سیاستدانوں سے لے کر تاجر، بیورو کریسی، پولیس، عدالتیں سب ادارے مضبوط ہو جائیں گے۔ کوئی ایک مثال دے دیں کہ کسی قومی لٹیرے اور طاقتور مجرم کو سزا ہوئی ہو۔ قومی خزانے کا پیسہ واپس آیا ہو اور پھر اس واپس آنے والے پیسے سے غریب عوام کو بھی ریلیف ملا ہو۔ ‘ نواز شریف‘ شہباز شریف تک کی گرفتاریاں ہوئیں عدالت میں کیس چلا۔ ٹرائل ‘ پیشیاں اور پھر ضمانتیں شہباز شریف کے بعد جلد ہی بڑے بھائی بھی آزاد فضائوں میں آنے والے ہیں۔ اس نظام میں اتنی ہی سکت ہے۔ آج ہی کی خبر ہے پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم حسین کی،جن پر کئی طرح کے الزامات ہیں بشمول مالی بدعنوانیوں کے ہوشربا الزامات کے۔ ان کی آج احتساب عدالت میں اچانک طبیعت بگڑ گئی اور ان سیاستدانوں کی طبیعت اکثر ہی گرفتار ہوتے بگڑ جاتی ہے۔ سو بھلا ہو اس طبیعت کے بگڑنے کا کہ اب احتساب عدالت نے خود ان کو بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ویسے یہ سیاستدانوں بھی کیسے بڑھیا اداکار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم حسین احتساب عدالت میں اتنے بیمار ہو گئے کہ انہیں اسٹریچر پر ڈال کر ہسپتال منتقل کرنا پڑا اور ظاہر ہے ہسپتال سے اگلی منزل ایسے سیاسی مجرموں کی لندن‘ امریکہ اور دوبئی ہی ہوتی ہے۔ رہا نیب‘ احتساب ‘ عدالتیں اور اس ملک کا قانون تو وہ گزشتہ 77سالوں سے اسی طرح سماجی اور معاشی برتری رکھنے والوں کے قدموں میں روندا جا رہا ہے۔ یہ قومی مجرم جب بکتر بند گاڑیوں میں عدالت پیشی بھگتنے جاتے ہیں تو ان کے زر خرید نعرے باز ان پر گلاب کی پتیوں کی بارش کرتے ہیں اور وہ جواباً وکٹری کا نشان ہوا میں لہراتے ہیں کہ بالآخر ہم قانون اور انصاف سے جیت جائیں گے۔ یہ بدبودار نظام اس لیے بنا ہے کہ موبائل چوری کے غلط الزام میں آٹھ سالہ یتیم بچے پر تھرڈ ڈگری، بدترین تشدد کرے اور ساری رات اس بچے کو گرم استریوں سے جلا جلا کر تفتیش کرے اور اربوںکھربوں لوٹنے والوں کو سلام کرے۔ ان کے قدموں میں ڈھیر ہو جائے انہیں احتساب عدالتوں سے ہسپتال اور ہسپتالوں سے بیرون ملک بحفاظت پہنچائے!!