صائب نے کیا خوب کہا تھا: صائب دو چیز می شکند قدرِ شعر را تحسینِ ناشناس و سکوتِ سخن شناس یعنی دو چیزیں شعر کی قدر کو کم کر دیتی ہیں کہ کوئی واقفِ فن نہ ہو اور شعر کی تحسین کر دے اور جو فن جانتا ہو وہ سن کر خاموش ہو جائے۔ یہ بڑی پتے کی بات ہے۔ ایک مرتبہ میر تقی میر افسردہ بیٹھے تھے، کسی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’آج مجھے ایک ایسے شخص نے داد دی ہے جو سب کو داد دیتا ہے‘‘۔ جرأت کے بارے میں ہے کہ انہیں مشاعروں میں بہت داد ملتی تھی۔ یہ وہی جرأت ہیں جنہوں نے مصرع کہا تھا ’’اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی‘‘جرأت اندھے تھے، انشاء اللہ خان انشاء نے اس مصرع پر دوسرا مصرع جڑ دیا تو شعر یہ ہو گیا: اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی ایک مشاعرے میں انہیں بہت داد ملی تو وہ اٹھ کر میرؔ کے پاس آئے جو کہ صدارت فرما رہے تھے اور داد طلب انداز میں پوچھا ’’میری غزل کیسی تھی؟‘‘ چونکہ جرأت کی غزلوں میں عشق و عاشقی زیادہ ہوتی تھی۔ میرؔ نے کہا ’’تم بوسہ بازی کر لیا کرو غزل نہ کہا کرو‘‘ میر کی اس بات سے قطع نظریہ شعر بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ انگریزی کے مشہور شاعر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ Poetry is not a cup of tea شاعری چائے کا کپ نہیں ہے۔ اب آتا ہوں میں اس بات کی طرف جو بیان کرنی ہے۔ کل جناب عطاء الحق قاسمی کا فون آیا۔ انہوں نے میرا کالم ’’سانحہ ایسا بھی ہو گا‘‘ پڑھا تھا جو میں نے اپنے دوست عدیم ہاشمی کے بارے میں تحریر کیا تھا۔ ان کی نوازش کہ وہ میرے کالم کو سراہنے لگے اور ان کی حوصلہ افزائی میرے لئے بالکل عام سی بات نہیں کہ میں بحیثیت کالم نگار ان کا بہت معترف ہوں۔ یہاں تک کہ میرا پہلا کالمی مجموعہ آیا تو میں نے انتساب ان کے نام کیا تھا۔ ان کے ہاں تنوع بہت ہے جسے ہم ورسٹیلٹی کہتے ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد آیا کہ جب پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو دوسرے یا تیسرے روز عطاء الحق قاسمی نے اپنے کالم میں میرے دو شعر حوالہ بنائے تھے: دشت کی پیاس بڑھانے کے لیے آئے تھے ابر بھی آگ لگانے کے لیے آئے تھے اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خزانے کے لیے آئے تھے بات سے بات نکلتی ہے تو پھر دور تلک جاتی ہے۔ شعر پہ داد ملنا آکسیجن کے مترادف ہے لیکن وہی بات کہ داد دینے والا سخن شناس ہو۔ ایک غالب کی سطح تھی کہ اس نے کہا ’’نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ مگر جب بہادر شاہ کی موجودگی میں ہونے والے مشاعرے میں کسی نے ان کا مصرع نہ اٹھایا تو وہ ناراض ہو کر چلے آئے۔ مگر جب ان کے ایک شعر پر ذوق جو کہ بادشاہ کا استاد تھا دل تھام کے رہ گیا اور دل سے واہ نکلی تو پھر سب شاگرد بھی واہ وا کر اٹھے۔ وہ شعر تھا: رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے مگر یہ بات ہر شخص تو نہیں جانتا۔ ایک مشاعرہ میں جنرل موسیٰ کی صدارت رکھ دی گئی تھی تو وہ بار بار ’’مکرر‘‘ کا لفظ سن کر تنگ پڑ گئے۔ پوچھا یہ کیا کہتے ہیں۔ بتایا گیا کہ مکرر کا مطلب ہے دوبارہ، یعنی شعر دوبارہ پڑھیے۔ جنرل موسیٰ یہ سن کر مائیک پر آئے اور کہا جس نے شاعری سننی ہے ایک ہی مرتبہ کان کھول کر سنے۔ بار بار شاعروں کو زحمت نہ دے۔ یہ داد دینا ویسے بھی ایک فن ہے اور داد لینا بھی۔ بعض شعرا تو باقاعدہ اپنے ’’دادیے‘‘ ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ یہ داد مشاعرے کا حسن بھی ہے مگر یہ داد سوچ سمجھ کر ہی دینی چاہئے۔ ایک شاعر کے بارے منیر نیازی کہا کرتے تھے کہ ’’پتہ نہیں یہ داد دیتا ہے کہ مذاق اڑاتا ہے‘‘۔ ایک مرتبہ غالب نے بھی تو استاد مومن کو کمال انداز میں داد دی تھی کہ جب مومن نے اپنا مشہور شعر پڑھا: تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا غالب نے مومن سے کہا کہ ’’وہ اس شعر کے بدلے ان کا سارا دیوان لے لیں‘‘ جب یہ بات ایک میمن نے سنی تو وہ سنانے والے سے پوچھنے لگا کہ ان کا سودا پھر ہوا کہ نہیں! ایک اور میمن صاحب فیض احمد فیض سے بھی ملنے آئے تھے۔ رات رہے، فیض نے آمد کی وجہ پوچھی اور حیرت کا اظہار کیا کہ ایک کاروباری آدمی ایک شاعر کے پاس کیسے آیا۔ اس میمن نے کہا کہ کاروبار ہی کے سلسلہ میں آیا ہوں، آپ نے خود کہا ہے: گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے ظاہر ہے اس جواب پر فیض صاحب نے سرپکڑ لیا ہو گا۔تبھی تو کہا گیا ہے: مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر تومیرے پیارے معزز قارئین! آج میں آپ کو لے کر کس طرف آ نکلا ہوں کہ یہ شاعروں کی دنیا ہے کہ جہاں واہ وا کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ لیجئے میں نے یہاں تک کالم لکھا تھا کہ معروف آرٹسٹ اور دانشور اسلم کمال کا فون آ گیا کہ عدیم ہاشمی کے حوالے سے میں نے لکھا ہے کہ وہ مصور بھی تھا۔ بالکل نئی بات ہے۔ کہنے لگے کہ انہیں میرے کالم کے حوالے سے کئی فون آ چکے۔ میں نے انہیں بتایا کہ عدیم ہاشمی نے شہزاد احمد کایہ پورٹریٹ پینسل ورک سے بنایا تھا جو کہ ان کے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے، مجھے اچھا لگا کہ امریکہ سے الماس شبی، بشریٰ حزیں اور کتنے ہی لوگوں نے کالم کی بابت محبت کا اظہار کیا۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ کہ لوگ ادب پر مبنی کالم پڑھتے اور ذکر کرتے ہیں۔ مجھے اپنے اخبار 92نیوز کو بھی داد دینی چاہئے کہ یہ لوگ ادب پرور ہیں۔ ویسے بھی ان کے کالم نگاروں میں سارے ادیب شاعر اور دانشور ہی تو ہیں۔ ارشاد احمد عارف بھی دیوار چین کے اس پار سفرنامہ تحریر کر چکے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ان کی موجودگی میں لکھنا اچھا لگتا ہے کہ ذہن میں رہتا ہے کہ آپ کی تحریر انہوں نے بھی پڑھنی ہے۔ چلیے آج کا کالم عطاء الحق قاسمی کے ایک شعر کے ساتھ ختم کرتے ہیں ؎ اک صدا دے کے میں لوٹ آیا عطا اس نے اندر سے جب یہ کہا کون ہے