فنانس ڈویژن نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کیلئے 851ارب روپے کے محاصل کی وصولی کا ہدف مقرر کیا جبکہ 836ارب روپے کے محاصل وصول پائے گئے۔ موجودہ معاشی حالات میں یہ وصولیاں کافی حوصلہ افزا ہیں۔ میں یہاں پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس وقت صرف 12فیصد کے لگ بھگ ہے یہ صورتحال معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کیلئے بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ اسی طرح Debt to GDP کے تناسب سے قرض کی شرح 72فیصد ہے جو اس چیز کی غمازی ہے کہ پاکستان پر اس وقت بیرونی اور اندرونی قرضوں کا شدید دباؤ ہے۔ فیصل آباد کی سوتر منڈی میں بھی تین دن ہڑتال رہی اور ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے سوتر کے تاجروں کو جبری طور پر رجسٹرڈ کیا جا رہا ہے اور سوتر کے تاجروں کے ٹیکس کی شرح 17فیصد،10فیصد اور چند مزید ٹیکسز کے تناسب سے وصولی کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے ہے کہ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے دورہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے موقع پر چیئرمین سوتر منڈی ایسوسی ایشن نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اپنے غیر رجسٹرڈ تاجروں کو نہ صرف رجسٹرڈ کروائیں گے بلکہ ایف بی آر کے ساتھ بھر پور تعاون جاری رکھیں گے۔ جس کو سوتر منڈی ایسوسی ایشن عملی جامہ نہیں پہنا سکی اور ابھی تک فیصل آباد کی تاجر برادری جو کہ مختلف گروپوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے گوناگوں کی کیفیت کا شکار ہے۔ حالانکہ اگر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی بجائے وہ کسی ایک لیڈر کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور اپنے مطالبات کو اجتماعی طور پر پیش کریں تو شاید یہ بے چینی کی فضا ختم ہو سکے اور تاجر اپنی تجارت اچھے طریقے سے سر انجام دے سکیں۔ ملک بھر میں بالخصوص اور فیصل آباد میں بالعموم محاصل کی وصولی کے اہداف حاصل نہ کر سکنے اور اس بے چینی کی فضا کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ پاکستان میں کیش اکانومی کی حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ اس کو بتدریج ختم کر دیا جائے۔ اس وقت تقریباً 80سے 90فیصد کاروبار نقدلین دین پر مبنی ہے۔ جبکہ بمشکل 10 سے 20فیصد کاروباری لین دین چیک، ڈیبٹ کارڈ وغیرہ کے ذریعے ہوتا ہے۔ میرے نقطہ نظر کی تائید ٹیکنو کریٹ ڈاکٹر عمر سیف نے اپنی حالیہ گفتگو میں کی۔ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹرکے بیان کے مطابق اگرپاکستان کی معیشت کو بتدریج ڈیجیٹلائز کر دیا جائے تو اس سے حکومت 36بلین ڈالر سالانہ کماسکتی ہے۔ مزید برآں روزگار کے بارے میں حقائق بھی بہت چونکا دینے والے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً ساٹھ ہزار پوسٹ گریجویٹ ہنر مند لوگ ہیں جو سرکاری ریکارڈ کے مطابق بے روزگار ہیں لیکن عملی طور پر وہ ای کامرس کے ذریعے آن لائن کاروبار میں مصروف ہیں۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق ہمارا یہ نوجوان طبقہ دنیا بھر میں ای کامرس کے ذریعے کامیابی کے ساتھ روزگار کما رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں متوسط طبقے کاحصہ تقریباً 34سے 36فیصد ہے۔ مزید برآں اعداد وشمار کے مطابق 1991ء میں صرف 4فیصد لوگوں کے پاس موٹر سائیکل، واشنگ مشین، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہولت میسر تھی جبکہ رواں سال کے دوران یہ تعداد تقریباً 36 فیصد تک پہنچ چکی ہے جو کہ قومی معیشت کیلئے انتہائی صحت مند علامت ہے۔ یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے متوسط طبقے کے پاس باضابطہ طور پر ای کامرس کے ذریعے کاروبار شروع کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان میں 70ملین افراد انٹر نیٹ استعمال کرتے ہیں جو فرانس اور اٹلی میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں سے تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ای کامرس کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کاروبار شروع کرنے کیلئے صرف الیکٹرانک ڈیوائس، انٹر نیٹ کی سہولت اور کاروبار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے فردکی ضرورت ہے ان سب چیزوں کا حامل کوئی بھی نوجوان گھر بیٹھے کامیابی سے اپنا کاروبار چلا سکتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت 161ملین لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔اس طرح پاکستان بجا طور پر دنیا کی 8ویں سب سے بڑی موبائل مارکیٹ ہے۔ جہاں تک ڈیجیٹل ادائیگیوں کے قابل اعتبار طریقہ کار کا تعلق ہے یہ پاکستان میں ای کامرس کے نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دوسری طرف یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً 2.5کروڑ بینک اکاؤنٹس ہیں۔پاکستان کی صرف 16فیصد آبادی اپنی مالی ادائیگیوں کیلئے ڈیبٹ، کریڈٹ کارڈ، ایزی پیسہ یا ماسٹر کارڈ استعمال کر رہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں تقریباً تمام بینکز innovativeکمپنی کے ذریعے one link سے منسلک ہیں۔ جو کہ تمام بینکز اے ٹی ایم کی سہولت مہیا کررہے ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حکومت پاکستان بھی کیش اکانومی کی حوصلہ شکنی کرے اور ملک میں ایسا طریقہ کار متعارف کروایا جائے جس کے ذریعے پاکستان میں بھی درآمد اور برآمد کنندگان دنیا بھر میں موجود خریداروں کوادائیگی کر سکیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں pay palسب سے موزوں بین الاقوامی ڈیجیٹل ادائیگی کا ادارہ ہے۔ اس کے ذریعے صنعتکار اور برآمد کنندگان خریداروں کو تیزی اور انتہائی شفاف طریقے سے ادائیگی کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ویسٹرن یونین، ٹرانسپرنسی اور ٹرانسفر ورلڈ وغیرہ جیسی کمپنیاں بھی کامیابی سے چل رہی ہیں لیکن ان کے چارجز بہت زیادہ ہیں اور یہ صرف بی ٹو بی ادائیگی کرسکتی ہیں جبکہ ان کے ذریعے BٹوC ادائیگی ممکن نہیں یعنی اگر آپ اپنے خریدار کو ادائیگی کر رہے ہیں تو آپ مذکورہ بالا کمپنیوں کے ذریعے ادائیگی کر سکتے ہیں، اگر آپ Bٹو Cیعنی کسی کنزیومر کو ادائیگی کرنا چاہتے ہیں تو وہ صرف پے پال کے ذریعے ممکن ہے۔ لہٰذا پے پال واحد لائسنس یافتہ کمپنی ہے جو صرف ضرورت کے مطابق دونوں اطراف سے ادائیگیوں کا انتظام کر سکتی ہے۔ پاکستان کی حکومت پے پال کو لائسنس دینے کو تیار نہیں۔ بظاہر اس خدشے کی وجہ سرمایے کی بیرون ملک پرواز ہے جس سے پاکستان جیسی کمزور معیشت کیلئے بیرونی ادائیگیوں کیلئے زرمبادلہ کے کم از کم ذخائر رکھنا مشکل ہو گا۔تاہم اگر پاکستان کا مرکزی بینک ایسی قابل عمل حکمت عملی تیار کرے جس سے بیرون ملک ادائیگیوں کو رئیل ٹائم کے مطابق کنٹرول کرنا ممکن ہوتو ای کامرس اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ پاکستان میں بھی متعارف کروایا جا سکتا ہے