مکرمی !گلگت بلتستان کی روایتی ٹوپی کو بڑی کمالِ مہارت سے بنایا گیا تھا۔تصویرِ دیبا مجسم ہو کر نظروں کے سامنے جلوہ افروز تھی۔میں کاریگر کی کاریگری کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔مگر ایک لمحے کے لیے میرے اوسان خطا ہوگئے اس لیے کہ تصویر کے عقب میں جلی حروف سے "راکا پوشی ہنزہ" لکھا گیا تھا۔ یہ ایک روایت جو برسوں سے چلی آرہی ہے۔جس کے پیچھے چند شر پسند عناصر اور خاص لابیوں کا ہاتھ ہے'جو خود بھی ہنزہ کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔جب نگر ہنزہ ایک ہی ضلعے کا درجہ رکھتے تھے تب پاکستان سمیت دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کو نگر کے اہم سیاحتی مقامات جن میں راکاپوشی،ہوپر گلیشئر اور دیئنتر قابلِ ذکر ہیں'کو باقاعدہ طور پر ہنزہ کی ملکیت ظاہر کر کے سیاحوں کو حقیقت سے گمراہ کرنا اس مخصوص ٹولے کا کام تھا۔اب یہ سازشی عناصر ضلع نگر کی حدود سے نکل کر گلگت بلتستان کی سرحدوں تک پہنچ گئے ہیں۔کہیں نلتر ہنزہ تو کہیں دیوسائی ہنزہ،کہیں راما ہنزہ تو کہیں پر پھنڈر ہنزہ کے اشتہارات اور سائن بورڈز دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کی اصلیت کو دیمک کی طرح چاٹنے کے مذموم عزائم کارفرما ہیں۔گلگت بلتستان ہمارے لیے قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔ہر ضلع اپنا ایک الگ رنگ اور علیٰحدہ مقام اور حْسن رکھتا ہے۔ہمیں تمام اضلاع سے یکساں پیار ہے۔لہٰذا اہلیانِ ہنزہ سے دست بستہ گزارش ہے کہ ایسے شر پسند افراد جو پورے ضلعے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں انہیں جلد بے نقاب کیا جائے۔اگر آپ پڑھے لکھے اور مہذب ہونے کا دم بھرتے ہیں تو اس فتنہ پرور ٹولے کو مزید اپنا تماشا بنانے مت دیں۔ ( اقبال حسین اقبال،گلگت)