پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے ایران امریکہ کشیدگی پر یکساں طور پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایران امریکہ کشیدگی کے حوالے سے پاکستان کے ممکنہ کردار کو صرف امن کا حامی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجو ہ نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے کہا ہے کہ خطہ کسی اور جنگ کی طرف نہ جائے اور پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ ترجمان پاک فوج نے کشیدہ صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے پاکستان کی کوششوں کا ذکر کیا اور ایران و امریکہ کے مابین مصالحت کی مساعی سے آگاہ کیا۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی گزشتہ 17 برسوں سے خلیج اور مشرقی وسطیٰ میں ایرانی مفادات کا تحفظ کر رہے تھے، میجر جنرل قاسم سلیمانی جانتے تھے کہ ایران کے لیے امریکہ سے براہ راست تصادم مول لینا ممکن نہیں اس لیے انہوں نے ایران کے مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے پراکسی جنگوں کا ڈیزائن تیار کیا، اس ڈیزائن میں انہوں نے ایرا ن نواز گروہوں سے رابطے کئے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے ان گروپوں کی حمایت حاصل کی جو خطے میں امریکی مداخلت کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ ان کی توجہ کا مستحق وہ گروپ بھی بنے جو اسرائیل کو عرب، فلسطینی اور مسلم امہ کے دشمن کے طور پر دیکھتے تھے۔ جنرل قاسم نے لبنان میں شیخ حسن نصر اللہ سے اتحاد کیا۔ بلاشبہ شیخ حسن نصر اللہ کی تنظیم حزب اللہ نے تن تنہا اسرائیل کا اس طرح مقابلہ کیا ہے جو کئی عرب ممالک کی منظم فوج بھی نہیں کر سکی۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو امریکہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ حکومت کو ختم کرنے کے لیے باغیوں کو تربیت ، وسائل اور اسلحہ دیا گیا۔ دوسری طرف داعش نے شام کی خانہ جنگی میں موقع دیکھ کر کچھ علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی سربراہی میں مسلح گروپوں نے عراق کے بعض سرحدی علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کیا۔ یوں بشار حکومت کے سامنے دو چیلنج تھے۔ قاسم سلیمانی نے بشار الاسدکا ساتھ دیا اور انہیں باغیوں کے ساتھ ساتھ داعش سے بھی نجات دلائی۔ ان دو رکاوٹوں کے دور ہونے کے بعد شامی حکومت اور اس کے اتحادی ممالک کے لیے بین الاقوامی سطح پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع ملا۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلافات کی حیثیت قدیمی ہے۔ عرب و عجم کا جھگڑااسلام کی روشنی نے ختم کیا تھا۔ دونوں ملکوں کی ضد اور غیر ضروری انا پرستی نے اس لڑائی کو پھر تازہ کر دیا ہے۔ بظاہر اس کو مسلکی رنگ میں دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس جھگڑے کی بنیاد مسلکی سے زیادہ غیر ملکی مداخلت پر ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ عراق، سعودی عرب، قطر، بحرین اور متحدہ عرب امارات میں امریکی دستوں کی موجودگی ایران کو غیر محفوظ بنا رہی ہے۔ ایران نے ان ممالک میں اپنے حامیوں کو منظم کر کے ایک جوابی صف بندی کر لی۔ یمن کے حوثیوں کی ایران نے در پردہ مدد کی اور حوثی سعودی عرب کے لئے خطرہ بن گئے۔ جنرل قاسم سلیمانی نے عراق میں ایران نواز دھڑوں کو اکٹھا کیا۔ عراق جو برس ہا برس سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے جنگی جرائم کا مرکز بن چکا ہے وہاں ان کی محنت رنگ لائی اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ لوگ امریکہ کے خوف سے نجات پا کر اس کے سفارت خانے پر دھاوا بولنے آ گئے۔ عراقی بچے امریکی فوجی قافلوں پر سنگ زنی کر رہے ہیں اور عراقی پارلیمنٹ نے قرار داد کے ذریعے امریکہ کو ملک سے اپنی افواج نکالنے کا کہہ دیا ہے۔ یہ سب جنرل قاسم سلیمانی کا ترتیب دیا گیا منصوبہ اور اس کے اثرات ہیں۔ ایسے شخص نے ایران کی پوری دفاعی حکمت عملی کا بوجھ اٹھا رکھا تھا لہٰذا اس کی موت پر ایران کے غم و غصے کے حجم اس پس منظر سے ماپا جا سکتا ہے۔ ایران کے روحانی رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ خطے کے مختلف ممالک میں ایران نواز طاقتور گروپ اشتعال میں ہیں۔ اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ کسی فریق نے تحمل کا دامن چھوڑا تو نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کا یہ کہنا کہ اس نے قبل از واقعہ حفاظتی حکمت عملی کے تحت جنرل قاسم کو قتل کیا ہے اور ایران نے ردعمل میں اس کے کسی مفاد پر حملہ کیا تو اس کا جواب زیادہ شدت سے دیا جائے گا‘ خطے کے امن کو لاحق خطرات کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے لئے دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی طویل جنگ کے بعد یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ کسی نئے تنازع کا حصہ بنے۔ پاکستان اپنی تباہ حال معیشت کو راہ راست پر لانے کے لئے امن کو ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ایران نے کشمیر پر ہمیشہ پاکستان کے موقف کی حمایت کی اس لئے برادر ہمسایہ ملک کے طور پر ہمیں صورت حال میں گھلی کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینٹ میں تقریر کے دوران ایران امریکہ کشیدگی پر تفصیلی بات کی ۔ انہوں نے ان گیارہ نکات کی نشاندہی بھی کی جو اس صورت حال میں سامنے آ رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت صورت حال کو سفارتی کوششوں سے معمول پر لانے کی حمایت کرنا ہے۔ تمام فریقوں کو تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ جہاں دنیا کو اقوام متحدہ میں اصلاحات پر قائل کرنا ضروری ہے وہاں مسلمان ممالک کو سمجھنا ہو گا کہ او آئی سی کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالے بغیر وہ اپنی آواز کو کشمیر‘ فلسطین عراق یا ایران کے معاملات پر موثر نہیں بنا سکتے۔