کتنے ذلت آمیز تھے بچپن کے وہ دن،جب اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا تھا ہر سو،بھوک لگتی تو کوئی کھلانے والا نہ ہوتا، بھوک سے نڈھال ہو جاتے تو گلی میں لگے نل سے پانی پی لیتے، فقیروں کی طرح کسی رشتے دار کسی محلے دار کے گھر چلے جاتے، ہمیں دیکھ کر کہا جاتا،، بچی کھچی روٹی ہے تو دے دو ان یتیموں کو، ، کہیں سے مل جاتی،کہیں سے دھتکاردیا جاتا، روٹی نہ ہو تو بھوک شاید زیادہ لگتی ہے،، ماں باپ مر گئے تو کسی نے سہارا نہیں دیا تھا ٭٭٭٭٭ پچیس سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، جب ایک سہ پہر صدی کے عظیم ترین شخص عبدلستار ایدھی اخبار کے آفس میں میرے ساتھ بیٹھے بڑی روانی سے اپنی زندگی کے اوراق الٹ رہے تھے،میں نے دو سوال سنبھال رکھے تھے ایدھی صاحب کے لئے، ایک دن جب وہ اچانک میرے آفس آگئے تو میں سب کام چھوڑ کر ان کی جانب متوجہ ہو گیا ،ہمت باندھ کر وہ دو سوال بھی کر ہی دیے،سوال تھے تو سیدھے سادے تھے، مگر آسان نہ تھے، سلام ایدھی صاحب کی سادگی کو، انہوں اپنا سب سچ کھول دیا میرے سامنے نہ کوئی عذر نہ کوئی دلیل ۔ انیس سو اناسی میں ایدھی صاحب سے میری پہلی ملاقات کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی،فریڈم آف پریس کی تحریک میں حیدر آباد جیل سے رہائی کے بعد کراچی پریس کلب پہنچا تو وہاں الو بول رہے تھے، یوں لگتا تھا جیسے کوئی جن سارے صحافیوں اور اسٹاف کو اٹھا کر لے گیا ہے، ہو کے اس عالم میں ایدھی صاحب بذات خود وہاں پہنچے ، وہ اپنے ایدھی سنٹر لے گئے ، جہاں سٹریچر پر لٹا کر مجھے گلوکوز کی بوتل لگائی گئی اور جوس پلانے کے بعد کھانا بھی کھلایا گیا، میں بہت ممنون ہوا ایدھی صاحب کا، اس واقعہ کے کئی سال بعد ایک بار نیو یارک گیا تو میرے ایک دوست نے ائیر پورٹ پر لیموزین کے اندر بیٹھے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عبدلستار ایدھی کا بیٹا ہے اور یہاں ایک کمپنی میں ڈرائیور ہے،میرے اس دوست کا دعوی تھا کہ مقامی بنکوں میں ایدھی سنٹر کی بڑی رقوم جمع ہیں لیکن یہ لڑکا مزدوری کرکے اپنی گزر بسر کرتا ہے،۔ میرا دوسرا سوال ان سے یہ تھا کہ آپ کے ادارے کے نام پر بنکوں میں چندے کی کثیر رقوم موجود ہیں، آپ ان پیسوں سے ملک کا نقشہ بدل سکتے ہیں، شاید لوگوں کی تقدیریں بدل سکتے ہیں ، پوری دنیا کے لوگ آپ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ آپ کو صادق اور امین مانتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے جواب دیا ،، آپ بالکل درست کہتے ہیں ، لوگ مجھ پر اندھا یقین رکھتے ہیں،انہیں دنیا بھر سے ایسے لوگ بھی عطیات دیتے ہیں جن کے ناموں کا انہیں بھی علم نہیں ہوتا، بے شمار لوگ عطیات ہی اس شرط پر دیتے ہیں کی ان کی شناخت نہیں پوچھی جائے گی, میں خود بھی دنیا کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچاؤں گا۔۔ ان کا ایک ایک پیسہ میرے پاس امانت ہے،، میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا،،، تو پھر آپ قومی سطح پر دوسرے فلاحی منصوبے کیوں نہیں شروع کرتے؟،، میں ان پڑھ ہوں اور دنیا اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ ظالموں سے بھی بھری پڑی ہے،،، آپ ایک ٹیم بنائیں،، اگر عام لوگوں پر اعتبار نہیں تو اپنے قریبی لوگوں کا ہی کوئی گروپ بنا لیں،،، ایدھی صاحب نے جواب میں کہا،،،، ڈرتا ہوں کہ کوئی خیانت نہ کر جائے،،،، چلیںآپ سب کو چھوڑ دیں، اپنے قریبی رشتے داروں کی ہی ٹیم بنا لیں، ایدھی صاحب بولیِِ رشتے داروں پر بھی اعتبار نہیں ماں باپ بچپن میں مر گئے تھے ،ہم بے سہارا ہو گئے، کسی نے کوئی مدد نہ کی، کسی نے بھی دست شفقت نہ رکھا ہمارے سروں پر، ہم رشتے داروں کے گھر کھانا مانگنے جایا کرتے تھے، ایک بار کسی رشتے دار کے گھر سے کوئی شے گم ہو گئی تو اس نے الزام مجھ پر لگا دیا، پھر کیا تھا ، میں کسی بھی گھر جاتا تو کہا جاتا، لو آ گیا ایدھی چور، میں ایدھی چور کے اسی الزام ،اسی تہمت کے ساتھ پروان چڑھا۔ ایدھی صاحب تو سیدھی سیدھی باتیں کرکے رخصت ہو گئے،مگر میرے لئے کئی سوال چھوڑ گئے، اپنی عظمت کے نشان چھوڑ گئے، میں نے تو ان کے لئے دو سوال ہی سنبھال رکھے تھے وہ میرے لئے کئی سو سوال چھوڑ گئے، ایک یتیم مسکین، بے سہارا، ان پڑھ بچے کو قدرت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا، اور اسے ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کا سہارا بنا دیا، اس شخص کو عزت و احترام کا استعارہ بنا دیا، ایدھی صاحب جب بھی یاد آتے ہیں تو خیال آتا ہے،،،، جس قسم کے غیر معقول سوال میں نے ان سے کئے تھے اور جس تحمل اور سچائی سے انہوں نے جوابات دیے تھے کیا میں خود ایسا کر سکتا ہوں، میں سوچتا رہ جاتا ہوں اور اپنے آپ سے شرمندہ ہو کر سر جھکا لیتا ہوں ٭٭٭٭٭ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں سمن آباد کا علاقہ فلم میکرز اور فلمی ستاروں کا پہلا مسکن بناتھا، وجہ تھی فلم اسٹوڈیوز کا قریب ہونا، لاہور کا یہ پہلا پوش علاقہ 80کی دہائی تک ایکٹرز پارک بنا رہا، یہاں اے شاہ شکار پوری، مسعور رانا، اداکارہ، شیریں،نغمہ، دیبا رضیہ ، رخسانہ ، ریکھا، اعجاز ، سلطان راہی، نجم الحسن ، شیخ اقبال اور کئی اور فلمی ہستیاں مقیم رہیں، شاعراحمد ندیم قاسمی، اداکار ادیب، رنگیلا، اے حمید ، ڈائریکٹر ثقلین رضوی، کلیم عثمانی، مسرور انور، رائٹر عزیز میرٹھی بھی قریب قریب ہی رہائش پذیر تھے، گلوکارہ مہ ناز کراچی سے لاہور شفٹ ہوئیں تو وہ بھی سمن آباد میں ہی آباد ہوئیں ، اس زمانے میں مہناز کا ایک فلمی گانا زبان زد عام تھا ،اس میں بہت غنائیت تھی۔ ؛میں ہوتی اک مورنی اور توں ہوتا اک مور جنگل جنگل ناچتی اور یہ کرتی شور ۔ایک دن اوکاڑہ سے منیر چوہدری ملنے آیا تو اس نے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ تمہاری پسندیدہ گلوکارہ مہناز تمہاری ہمسائی بن چکی ہے؟ مہناز نے سمن آباد ایکسچینج والی سڑک کی ایک بغلی گلی میں کرائے پر گھر لیا تھا، بھارت سے آنے والے فلم ڈائریکٹر راکھن بھی کچھ عرصہ اسی گلی کے مکین رہے، مہناز اس گھر میں اپنے والد ، والدہ اپنے دور کی عظیم کلاسیکل گلوکارہ کجن بائی اور چار بھائیوں کے ساتھ رہ رہی تھی ، اس فیملی سے میری دنوں میں ہی دوستی ہو گئی، اب مجھے پان کھانے سمن آباد مین مارکیٹ جانے کی ضرورت نہ رہی تھی، میں صبح جاگتے ہی مہناز کے گھر پہنچ جاتا، جہاں کجن بائی پاندان سجائے میری منتظر ہوتیں، کبھی کبھی ناشتہ بھی ساتھ ہو جاتا، آہستہ آہستہ یہ تعلق آگے بڑھنے لگا، اب کوئی بھی فلمی آدمی یا موسیقار مہناز کو سائن کرنے آتا تو اسے ہاں یا ناں کہنے کے لئے مجھ سے مشورہ ضروری سمجھا جانے لگا، ایک دن تو حد ہو گئی، مہناز کو فلم سے متعارف کرانے والے اے حمید ایک گیت لے کر وہاں آئے تو مہناز نے ہاں کرنے کے لئے مجھ سے اجازت چاہی، میں اس بات پر خود شرمندہ ہو گیا ، مہناز کی موت سے دو دن پہلے سترہ جنوری سن دو ہزار کومیں نے نیویارک سے لاہور آتے ہوئے پہلی بار کسی ائیر لائینز کے وڈیو سسٹم سے استفادہ کیا، وہاں مہناز کا ایک گھنٹہ دورانیہ کا پروگرام موجود تھا، میں نے مہناز کے سارے گیت پورے انہماک سے سنے، یہ محض ایک اتفاق تھا۔ مہناز اکیلی کمانے والی اور پورا خاندان کھانے والا تھا، چاروں بھائی جوان تھے مگر کوئی کام نہیں کرتے تھے، سردیوں میں باپ کے ساتھ سڑک پر کھڑے ہو کر صرف دھوپ تاپا کرتے تھے، میں جانتا تھا کہ ایک دن سب بھائی اپنی اپنی جگہ سیٹ ہو جائیں گے، ماں باپ سے زندگی کا ساتھ چھوٹ جائے گا اور مہناز اکیلی رہ جائے گی، یہی ہوا بعد میں، اس نے بھائیوں کو تو امریکہ میں سیٹ کر دیا اور خود اکیلی بیماری سے جنگ کرنے واپس کراچی چلی گئی۔ چھ سال پہلے وہ علاج کی غرض سے امریکہ کیلئے روانہ ہوئی تھی۔ جہاز جب بحرین پہنچا تو فضا میں اسے ہارٹ اٹیک ہوا، جہاز کو اسے اسپتال لے جانے کیلئے زمین پر اتار لیا گیا مگر تب تک وہ آسمان کی جانب پرواز کر چکی تھی، خوش نصیب تھی کہ اس کی میت پر رونے والے کئی لوگ موجود تھے، ورنہ شوبز کی کئی عورتوں کو تو دفنایا بھی خفیہ طور پر گیا۔ منیر چوہدری نے فون کرکے مہناز کے انتقال پر تعزیت کی تو میں نے جواب دیا۔ وہ تھوڑے سے جو دن اس فیملی کے ساتھ گزرے تھے وہ بھی مہناز کے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔