ایرانی معاشرے اور افغان معاشرے میں اس قدر جوہری فرق ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نظر آتے ہیں۔ ایرانی طرزِ زندگی تکلفات،زبان و بیان کی دلآویزیوں اور خوشامد و چاپلوسی سے بھر پور ہے۔ آپ اگر کسی ایرانی سے ملاقات کریں تو وہ پہلے چند فقرے آپ کی تعریف و توصیف میں بولے گا،جن کے بارے میں ایرانی خود کہتے ہیں کہ ہمارے یہ فقرے بس رسماً ہیں، ان پر یقین مت کریں۔آپ نے کسی دکاندار سے سودا لینے کے بعد اسے پیسے دیئے تو وہ پیسے پکڑ کر آپ کو واپس کرتے ہوئے کہے گا ’’قابل نہ داری‘‘ یعنی (میں اس قابل نہیں ہوں)۔ آپ اسے پیسے زبردستی واپس کرتے ہیں اور ساتھ اس کے کام یا سودے کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی کوئی چیز لا کر دی تو وہ شخص بے ساختہ طور پر کہے گا ’’دستِ شما درد نہ کنی‘‘ (تمہارے ہاتھ میں کبھی درد نہ ہو)۔ ہر کوئی دھیمے لہجے میں بولتا ہے۔ کوئی اگر بلند آواز سے بات کرتا ہوا نظر آئے، تو وہاں موجود شخص، اس کے بارے میں کہے گا، ’’خراسانی است‘‘ (یہ کوئی خراسانی ہے)۔ خراسان دراصل ایرانیوں کے ذہن میں وہ علاقے ہیں جن پر آج کا افغانستان مشتمل ہے۔ خراسانِ قدیمی کا نقشہ اُٹھائیں تو دریائے آموں (Oxus) سے دریائے سندھ (Indus) تک کا علاقہ خراسان کہلاتا تھا اور اس میں ایران کا مشہد کا علاقہ بھی شامل تھا۔ رسولِ اکرم ﷺ کے انقلابِ اسلامی اور خلفائے راشدین کے زمانے کی فتوحات کے بعد جو علاقے اسلامی خلافت کا حصہ بنے، ان سب میں ایک بہت بڑی تبدیلی یہ آئی کہ عوام نے اپنی مادری زبانیں ترک کر دیں اور قرآن کی زبان، عربی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ عراق، شام، اُردن، مصر، سوڈان، مراکش اور لیبیاء وغیرہ میں کبھی عربی نہیں بولی جاتی تھی لیکن آج یہ سب عرب دُنیا بلکہ ’’عرب لیگ ‘‘ کا حصہ ہیں۔ ایران کا معاشرہ بھی اسی طور پر چل نکلا تھا اور عربی ان کے ماحول میں رَچ بَس رہی تھی کہ اس دوران تُرکوں کی خلافتِ عثمانیہ مرکزِ خلافت پر براجمان ہو گئی اور ان کے قریبی رشتے دارا(کزن) صفوی ایران کے بادشاہ بن گئے۔ اس زمانے تک یہ دستور تھا کہ ہر کوئی چھوٹا بڑا مسلمان حکمران، مرکزی خلافت کو تسلیم کر کے سندِ حکومت طلب کر تا تھا۔ صفوی خون، تُرک نژاد، یہ کیسے گوارا کرتا کہ اپنے ہی ہم پَلہ ترکوں کو خلیفہ تسلیم کرے۔ انہوں نے تو پہلے ہی عثمانی حکمران شاہ سلیم سے جنگیں بھی کر رکھیں تھیں،جن جنگوں میں یورپ کے ممالک نے ان کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔صفویوں نے خلافتِ عثمانیہ کی مرکزیت سے علیحدگی کیلئے دو اہم کام کئے ایک تو ایران کا سرکاری مذہب شیعہ قرار دیا اور دوسرا قدیم ایرانی تہذیب و ثقافت اور زبان و بیان کو ازسرنو زندہ کیا۔ فردوسی کے ’’شاہنامے‘‘ نے ان سے پہلے ہی ایرانیوں کے دل میں ایک ’’زندہ رود‘‘ کی طرح فارسی ادب جاری کر دیا تھا۔ ایران کے مقابلے میں افغانستان نے اپنے صدیوں پرانے ماحول کو اب تک زندہ رکھا ہوا ہے، اور انہوں نے اس پر نہ ایرانی شہنشاہیت کے اثرات آنے دیئے اور نہ ہی کسی اور حملہ آور کو قبول کیا۔ اسکے علاوہ افغانوں میں خصوصاً پشتون معاشرے نے اسلام کو ایسے دل و جان سے قبول کیا، کہ اسلام ان کا محاورہ بن گیا، (تہ سنگ پشتا نہ دی منز نہ کہیہ)۔ ’’تم کیسا پٹھان ہے کہ نماز نہیں پڑھتا‘‘۔ یعنی وہ مسلمان کا طعنہ نہیں دیتا بلکہ پٹھان ہونے کا طعنہ دیتا ہے اگر کوئی نماز نہ پڑھے، روزہ نہ رکھے، سر نہ ڈھانپے یا عورتوں کو پردہ نہ کروائے۔ یہ سب ’’پشتون ولی‘‘ کا حصہ ہیں۔ کس قدر حیران کن بات ہے کہ پشتون شادیوں کے ٹپوں کا ہیرو کوئی چھیل چھبیلا نوجوان نہیں ہے بلکہ ایک طالب ہے، ’’تورہ طالبازے ناجوڑیم’’ (اے کالے طالب، میں بیمار ہوں میری خبر تو لو)۔ ایسا دُنیا کے کسی بھی معاشرے میں نہیں ہوتا کہ دین کے راستے میں علم حاصل کرنے والا ’’طالب‘‘ ایک رومانی ہیرو بھی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبالؒ نے ابلیس سے جو مشورہ دلوایا وہ یہی تھا: افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج مُلا کو اس کے کوہِ دمن سے نکال دو یہ مُلا افغانوں کی زندگی سے تو نہ نکل سکا۔ لیکن اس مُلا نے اپنی سرزمین سے تین سُپر پاورز کو ذلیل و رُسوا کر کے نکال دیا۔ قانون کی کُتب کا یہ بنیادی اُصول ہے کہ ’’قانون رسم و رواج سے جنم لیتا ہے۔ افغانوں کے معاشرے پر اسلام اور شریعت کی چھاپ بہت گہری تھی اس لئے وہاں طالبان کو شرعی قوانین کے نفاذ میں کبھی کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا۔ افغان معاشرہ ایک مخلوط معاشرہ بالکل نہیں تھا۔ وہاں رقص و سرود اور شراب و شباب بھی مردانہ محفلوں کا حصہ تھے یا پھر کابل کی ایک فیصد اشرافیہ کا شوق۔ سات پردوں میں چُھپی افغان عورت کو پردوں میں رکھنا زیادہ آسان تھا، جبکہ اسے پردوں سے باہر لانا بہت مشکل۔ دُنیا میں سیاسیات کا علم ریاست کی دو ذمہ داریاں بتاتا ہے۔ (1) امنِ عامہ کا قیام (2) انصاف کی فراہمی۔ لوگ اپنا کاروبار، بچوں کو پالنا اور یتیموں کی دیکھ بھال یہاںتک کہ شہری سہولیات بھی خود فراہم کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر امنِ عامہ اور انصاف نہ ہو تو سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔ ایران اور افغانستان دونوں اسلامی انقلابوں میں ریاست کی یہ دونوں ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کی گئیں۔ اسی لئے دونوں معاشرے کئی سالوں تک مطمئن رہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ طالبان پر عالمی طاقتیں پانچ سال بعد ہی پوری عسکری قوت سے کیوں چڑھ دوڑیں اور ایران کا صرف سفارتی اور معاشی مقاطعہ ہی کیا گیا۔ ایرانی انقلاب نے جو قوانین مرتب کئے، ان سب میں اصطلاحات سے لے کر ڈھانچے تک سب کا سب جدید مغربی تہذیب سے مستعار لیا ہوا تھا۔آئین، پارلیمنٹ، صدر، سپیکر، انتخابات اور وزارتیں وغیرہ۔ یونیورسٹیوں،ہسپتالوں،دکانوں اور بازاروں میں مخلوط زندگی کو برقرار رکھا گیا۔البتہ جمہوری ڈھانچہ کے اوپر رہبری کونسل کے ذریعے علماء کی ایک سرپرستی قائم کی گئی اور مخلوط معاشرے کو خواتین کے حجاب سے ڈھانپ دیا گیا۔موسیقی اور شاعری ایرانی معاشرے کی جان ہے۔ ان دونوں میں عورت اور مرد کو علیحدہ کر دیا گیا اور موسیقی اور شاعری کے موضوعات کو بھی پاکیزہ بنایا گیا۔ ایران کے خلاف عسکری قوت کے استعمال سے گریز کی بہت وجوہات ہیں۔ ان میں عالمی مجبوریاں جیسے عراق اور افغانستان میں ایران کی ضرورت اور دُنیا بھر میں پھیلی بارہ کے قریب ایرانی پراکسی (Proxies) کا خوف تھا، اسکے ساتھ یہ بھی تھا کہ مغرب کو کبھی بھی ایرانی اصطلاحات اور ڈھانچے کے اعتبار سے ایرانی معاشرہ بدلا ہوا نظر نہیں آتا تھا۔ بس اسے حجاب سے ڈھانپا گیا تھا اور شریعت کا غلاف اوڑھا دیا گیا۔ ایسے معاشروں میں جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے تو شاہِ ایران کی طرح سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ لیکن افغانستان جیسے معاشرے میں تو سب کچھ الف سے لے کر یے تک بدلنا پڑتا ہے۔ افغان عورتوں کو سات پردوں سے نکالو، مردوں کو مخلوط طرزِ زندگی کا عادی کرو، رقص و سرود اور شراب و شباب کو عام کرو۔ اس سب کیلئے امریکہ اور نیٹو افواج کو خود میدان میں اُترنا پڑا۔ ساڑھے تین ہزار ارب ڈالر اور بیس سال جھونک دیئے گئے اور پھر بھی ذِلّت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ افغان اسلامی انقلاب ایک ایسے معاشرے سے نکلا ہے، جس کی رسوم و رواج اور اقدار و روایات رسولِ اکرم ﷺ کے عرب معاشرے سے بہت قریب تھیں جبکہ ایرانی انقلاب ایک ایسے معاشرے سے نکلا ہے جس کی رسم و رواج اور اقدار و روایات مغربی معاشرے سے قریب تھیں۔ انہی رسم و رواج نے ان دونوں میں ایک بنیادی جوہری فرق پیدا کیا۔ لیکن دونوں انقلابات اپنی ہئیت کے اعتبار سے مختلف سہی، کامیاب ضرور ہیں۔ اب پاکستان کی مذہبی، سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا۔ دو ماڈل موجود ہیں، ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے نفاذِ شریعت کی تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر پھر بھی سراج الحق صاحب نے مہنگائی کے خلاف ہی تحریک شروع کرنا ہے اور مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کو ہی بچانا ہے تو پھر ہم اس روزِ محشر کا ضرور انتظار کریں گے، جب پاکستان کی تمام مذہبی، سیاسی جماعتوں کے سربراہ ایک عام آدمی کی طرح اپنی اپنی فردِ جرم کا جواب دیں گے۔(ختم شد)