اچھی بات ہے کہ پاکستان نے فی سبیل اللہ سعودی عرب اور ایران میں مصالحت کا مشن شروع کیا ہے۔اگرچہ اس میں کئی چیزیں سامنے آئی ہیں۔ مشن شروع کرنے سے پہلے حکومتی سیانوں نے اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کی درخواست پر ہم نے ثالثی کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی عرب نے فوراً تردید کی اور کہا کہ ہم نے کسی کو ثالثی کا نہیں کہا۔ اس پر دفتر خارجہ پاکستان کو وضاحت کرنی پڑی کہ یہ ثالثی نہیں‘ مصالحت کا مشن ہے جو ہم از خود کر رہے ہیں۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے جب یہ خبر دھوم دھام سے نشر کرائی گئی کہ امریکہ نے ثالثی کا کہا ہے۔ امریکہ نے بھی فوراً ہی تردید کی۔ یہ تردید البتہ نسبتاً کم دھوم دھام سے شائع ہوئی۔ صلح ہو جائے تو اور کیا چاہیے لیکن فی الحال یعنی تا اطلاع ثانی صلح ہوتی نظر نہیں آتی اگرچہ براہ راست جنگ کا بھی ذرا بھر امکان یا خدشہ نہیں ہے جیسے کہ پاکستانی سیانوں نے انتباہ کر دیا تھا کہ ایران سعودی عرب جنگ سے بہت تباہی ہو گی۔ تمام عالمی مبصرین متفق ہیں کہ دونوں ملکوں میں جنگ خارج ازامکان ہے لیکن وہ سیانے ہی کیا جو جنگ کے خطرے سے خبردار نہ کریں۔ یہ ویسا ہی انتباہ تھا جیسا کہ دو تین درجن سے بھی زیادہ بار پاک بھارت ایٹمی جنگ کے حوالے سے جاری کر چکا ہے۔ ٭٭٭٭٭ سعودی عرب اور ایران میں تنازع کا مرکزی نکتہ یمن ہے۔ کچھ برس پہلے تک شام بھی تنازعے کی وجہ تھا۔ سعودی عرب بشار الاسد کے خلاف تحریک کا حامی اور شام میں ایران کے اثر و رسوخ کا مخالف تھا۔ لیکن اب وہ بشار کا حامی ہو گیا ہے۔ اس نے نہ صرف اسے جائز حکمران تسلیم کر لیا ہے بلکہ شام میں ایران اثر کو بھی قبول کر لیا ہے۔ لیکن یمن کا معاملہ شام سے قطعی مختلف ہے۔ شام سعودی کی سرحد پر نہیں ہے بلکہ بیچ میں اردن کا ملک آتا ہے۔ شام پر سعودی عرب کا کوئی تاریخی دعویٰ بھی نہیں ہے۔ یمن سعودی عرب کی جنوبی سرحد پر ہے اور سرحد کے دونوں طرف جزیرہ نمائے عرب کا حصہ ہے۔ شام تو تاریخی ادوار میں عرب ملک بھی نہیں رہا۔ طلوع اسلام کے بعد وہاں عربوں کا تال میل ہوا اور شام ہی نہیں ‘ یہ پورا خطہ ہی عرب ہو گیا۔ یمن کا موجودہ تنازعہ2014ء میں بھڑکا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا اور صدر منصور ہادی کو اپنا دارالحکومت عدن میں لے جانا پڑا لیکن جلد ہی حوثی یلغار عدن تک پہنچ گئی۔ جس کے بعد ہادی حکومت سعودی عرب جلا وطن ہو گئی۔ اس کے بعد سعودی عرب حرکت میں آیا اور جوابی کارروائی میں اس نے جلد ہی عدن اور ملحقہ علاقے آزاد کرا لئے۔ یمن دو ملکوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک شمالی یمن ’ دوسرا جنونی یمن۔1990ء میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو یمن بھی بند ہو گیا اور یہاں کے اشتراقی بھی قوم پرست بند گئے۔ الیکشن ہوئے اور صدر علی صالح سعودی عرب کے اتحادی تھے لیکن تختہ الٹے جانے کے بعد مخالف ہو گئے اور حوثیوں سے جا ملے اور بعد میں انہی کے ہاتھوں مارے گئے۔اسی اتحاد نے تین ہی برس بعد نہ صرف یہ کہ سارے (سابق) شمالی یمن پر قبضہ کر لیا بلکہ عدن سمیت جنوبی یمن کا قابل ذکر رقبہ بھی اسی اتحاد کے پاس چلا گیا۔ اس وقت امریکہ کے صدر اوباما تھے جو درپردہ حوثیوں کا ساتھ دے رہے تھے۔ عدن کی طرف حوثیوں کی یلغارسے پہلے اوباما انتظامیہ نے قریبی اڈے پر تیزی سے اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا جس پر عالمی میڈیا نے یہی تاثر لیا کہ امریکہ حوثیوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے والا ہے لیکن اصل کھیل کچھ اور تھا۔ جونہی حوثی قریب آئے‘ امریکی فوج کو حکم آیا کہ فوراً انخلا کرو۔ سارے فوجی ہیلی کاپٹروں اور جہازوں پر بیٹھ کر اڑ گئے اور حوثیوں نے اوباما کا یہ بے پناہ اسلحے کا ’’تحفہ‘‘ قبضے میں لے لیا۔ سعودی عرب کو پتہ چلا کہ امریکہ نے اس کے ساتھ کیا ہاتھ کر دیا ہے تو اس نے یہ جنگ اپنی طاقت کے بل پر لڑنے کا فیصلہ کیا۔ سوڈان ‘ قطر‘ امارات نے بھی فوجی تعاون کیا، یوں چار رکنی عرب فوج وجود میں آئی۔ اس نے حیرت انگیز رفتار سے جوابی کارروائی کی اور نہ صرف عدن بلکہ اس سے ملحق تعز صوبے کا وسیع رقبہ‘ ملحقہ صوبہ زنجبار پورے کا پورا آزاد کرا لیا۔ شمال سے بھی یلغار کی اور الجوف اور مارب صوبوں کا وسیع علاقہ بھی واپس لے لیا۔ پھر دوسری بڑی بندگاہ موخا پر قبضے کے بعد سب سے بڑی بندرگاہ الحدیدہ کا بھی محاصرہ کر لیا۔ اسے اتفاق سمجھئے کہ سعودی فوجی اتحاد بننے کے بعد حوثیوں کے قدم جم گئے اور دو سال سے انہوں نے سعودی اتحادی افواج کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے‘ نہ صرف یہ کہ سعودی اتحادی فوج کہیں بھی حوثیوں کو پیچھے نہیں دھکیل سکی بلکہ الٹا حوثیوں نے جنگ کو کامیابی سے سعودی سرزمین پر پھیلا دیا(صوبہ جازان) سعودی عرب اس جنگ میں تھک چکا ہے لیکن اتنے تازہ دم حوثی بھی نہیں رہے۔ سعودی عرب یمن کو اپنے قومی جسد کا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔ یمن سے حوثیوں کی پسپائی کے بغیر اس کا صلح پر آمادہ ہونا محال ہے اس کے موقف میں وزن بھی ہے کہ ایران تیسرے محلے سے آ کر اس کے پڑوس میں مداخلت کیوں کر رہا ہے۔ یمن کی آبادی کا زیدی اور حوثی لگ بھگ 40فیصد ہیں اور پانچ سال کے بعد بھی شمالی یمن کے بیشتر رقبے پر وہی قابض ہیں۔ ایران کی معیشت دن بدن ناتواں ہوتی جا رہی ہے اور سعودی عرب کو امریکہ سے زیادہ مثبت توقعات اسی پہلو سے رہ گئی ہیں کہ امریکہ کی طرف سے اس کی فعال مدد کا کوئی امکان نہیں اور اسلامی فوج صرف گاف کھیل سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭