برطانوی سامراج نے محکوم ومغضوب ہندوستان پہ ہر وہ استعماری حربہ آزمایا جواس کی قوت و ہیبت میں اضافہ کرسکے۔ چونکہ اس کشور کشائی کا کوئی اعلی مقصد نہیں تھا اور اس کی ابتدا سرمائے کی ہوس میں مبتلا تاجروں کی اس گروہ نے کی تھی جسے سلطنت برطانیہ کی آشیرواد حاصل تھی اس لئے اس کا مقصد اولی سونا اگلتے ہندوستان سے سرمایہ برطانیہ منتقل کرنا تھا جو انہوں نے کیا۔ اس مقصد کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کاا نتخاب کیا جہاں یورپ کا سرمایہ جاتا تو تھا لیکن واپسی کے امکانات صفر ہوتے تھے۔اس کا باعث وہ یکطرفہ درامدات ہوتی تھیں جو یورپ اس خطے کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ آج ہمارے کچھ دانشور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں گویا جہالت اور غربت کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے اور ہندوستان ایک ایسا دورافتادہ لاوارث خطہ تھا جہاں انارکی تھی، فساد تھا ، جہالت تھی اور غربت تھی ۔ یہ تو انگریزوں کا احسان ہے کہ اس نے ہندوستان کا رخ کیا تاکہ اسے نظام تعلیم دے سکے، ایک منظم فوج دے سکے بکھری ہوئی اکائیوں کو یکجا کرسکے ، ریل کی پٹریوں کا جال بچھا سکے،بیوروکریسی بنا سکے اور غربت کے مارے ہندوستانیوں کو خوشحالی کا راستہ دکھا سکے۔ایسا لیکن ہرگز نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ ہندوستان مختلف سیاسی اکائیوں میں بٹا ہوا تھا اور کبھی ایک متحدہ ملک کے طور پہ موجود نہیں رہا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ اس سرزمین کو برطانوی استعمار کا ڈھائی سو سالہ انتہائی ظالمانہ راج جھیلنا پڑے۔ان ہی باہمی چپقلشوں نے ہمیشہ اسے باہر سے آنے والے حملہ آوروں کو راستہ دکھایا جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جارحین کے ہاتھ مضبوط کئے ۔شہنشاہ اکبر کے زمانے سے ہی منصب داری نظام موجود تھا جس میں منصب داروں میں جاگیریں انتظامی طور پہ تقسیم کی گئی تھیں۔ یہ منصب دار اکبر کے ساتھ مہمات میں شریک ہوتے اور زنامہ امن میں اپنی جاگیروں کو لوٹ جاتے۔ اسی نظام نے بعد میں پرپرزے نکالنے شروع کئے اور منصب داروں نے اپنی جاگیروں پہ کسانوں سے ٹیکس وصل کرنا شروع کیا۔ ان ہی میں سے کچھ اتنے مضبوط ہوئے کہ مرکزی حکومتوں کے خلاف بغاوت اور شورش پہ آمادہ ہوگئے۔اس وقت بھی ہندوستان معاشی طور پہ مضبوط رہا لیکن اس میں مرکزیت نہ تھی۔ اس بکھری معیشت نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دو صدیوں تک پالا پوسا اور سرمایہ اس کے ذریعے برطانیہ جاتا رہا۔ جنگ پلاسی میں نواب سراج الدولہ کو شکست کے بعد کمپنی کے ہاتھ پچیس لاکھ پاونڈز آئے جن میں تنہا لارڈ کلائیو کا حصہ ڈھائی لاکھ پاونڈز تھا۔سراج الدولہ کی شہادت کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے وفاداری کے صلے میں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کئے اور ہر ایک سے 26 لاکھ پاونڈ بٹور لئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے صدیوں کی تجارتی تاریخ بدل کر رکھ دی۔اس سے قبل دولت کا بہاو مغرب سے مشرق کی جانب تھا۔یورپ ، تجارت کے لئے ایشیا کامحتاج تھا جہاں سے مسالے، کپڑا،خوشبویات ، لکڑی اور دیگر سامان تعیش و ضروریات سونے اور چاندی کے بدلے خریدا کرتا تھا۔سولہویں صدی کیاختتام تک ہندوستان اور چین کی معیشت یورپ سے دگنی تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے خاتمے تک یہ تناسب الٹ چکا تھا۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے باوجود بنگال کی کپڑے کی صنعت اتنی اعلی اور مستحکم تھی کہ خود کمپنی کے امرا برطانیہ سے درامد شدہ کپڑا استعمال نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ہندوستانی کپڑے کی صنعت کو تباہ کرنے کے لئے ظالمانہ ٹیکس لگائے گئے۔مغل دور میں جو لگان40 فیصد تھا وہ 60 فیصد کردیا گیا۔ اشیائے خوردونوش حتی کہ نمک تک پہ ٹیکس لگا دیا گیا۔کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج نے اعتراف کیا کہ ہندوستان کو صنعتی ملک سے زرعی ملک بنا دیا گیا ہے تاکہ برطانیہ کا مال ہندوستان میں بیچا جاسکے اس طرح 1814 ء سے 1835 ء تک برطانوی کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں اکیاون فیصد اضافہ ہوگیا جبکہ ہندوستان کی برامدات ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گئیں۔برطانیہ کی برامدات جو1815 ء میں بائیس لاکھ پاونڈز تھی 1822 ء تک اڑتالیس لاکھ پاونڈ ہوگئی ۔ڈھاکہ میں کپڑا بافی کی صنعت تباہ کردی گئی اور آبادی گھٹ کر ڈیڑھ لاکھ سے صرف بیس ہزار رہ گئی۔گورنر جنرل علیم بننگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی صورتحال کی مثال مشکل ہے۔ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے زمین سفید ہوگئی ہے۔ اپنی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ میں بنگال میںسترہ بار قحط پڑا جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈھائی سو سالہ دور میں یہ دوگنا ہوگیا کیونکہ انہیں یہی مقصود تھا۔کمپنی کے ڈائریکٹر خود اناج خریدتے ، ذخیرہ کرتے اور قحط پیدا کرتے تاکہ بھوک سے مرتے لوگوں سے منافع بٹورا جاسکے۔اس طرح کم سے کم ایک کروڑ انسانوں کا خون آج کے حقوق انسانی کے چیمپئن برطانیہ کے سر ہے۔جنگ آزادی میں شکست خوردہ باغیوں کا قتل عام اس کے علاوہ ہے جب الہ آباد کے ہر درخت سے سینکڑوں لاشیں جھولتی نظر آتی تھیں جیسے املتاس کے پھول۔ جب ظلم و بربریت کی حد ہوگئی تو کٹی پھٹی لاشوں کو تاج برطانیہ کے حوالے کردیا گیا۔ یہاں سے غداریوں، وفاداریوں اور ان کے صلے میں ملنے والی زمینداریوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد پنجاب میں دریاوں سے نہریں نکال کر رقبے اور جاگیریں بنائی گئیں اور ان وفاداروں میں تقسیم کی گئیں جنہوں نے جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ مغلوں نے تو اپنے وفاداروں میں زمینیں عارضی ملکیت کی بنیاد پہ تقسیم کی تھیں جو بادشاہ کی ملکیت رہتی تھیں، انگریزوں نے ان زمینوں کی ملکیت بھی اپنے وفادار وں کے حوالے کردیں کیونکہ وہ کونسا ان کی زمینیں تھیں۔ انہیں تو کبھی نہ کبھی واپس جانا تھا۔ اس عمل کا آغاز بنگال میں مستقل آبادکاری کے نام پہ 1793 ء میں لارڈ پالمرسٹن نے کیا جو بعد میں پورے برصغیر پہ لاگو ہوگیا۔ اسی بنیاد پہ معروف سوشلسٹ اور کالم نگار لال خان پاکستان کو کلاسیکی جاگیردار سماج نہیں سمجھتے کیونکہ ان کی اکثریت آبائی طور پہ ان زمینوں کی مالک نہیں رہی بلکہ انہیں یہ انگریزوں کی طرف سے آزادی کی تحریکوں کو کچلنے اور حریت پسند حکمرانوں اور نوابوں کے خلاف غداری کے صلے میں دی گئیں۔یہی وہ جوہری مسئلہ تھا جس نے پاکستان کو ڈھنگ سے زرعی ملک بھی نہ بننے دیا۔ ایوب خان نے زرعی اصلاحات کی کوشش کی لیکن نیم جاگیردارانہ اور نیم صنعتی ڈھانچے میں اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے۔بھٹو دور میں اس طبقے میں عدم تحفظ کا اتنا شدید احساس پید اہوا کہ اس نے زمینیں اتنی بڑی تعداد میں گروی رکھیں کہ اگر یہ ضبط کی جاتیں تو بینک دیوالیہ ہوجاتے۔ ان ہی میں سے اکثر نے زمینیں فروخت کیں اور صنعتوں میں لگا کر صنعت کار بن بیٹھے۔ بدقسمتی سے انگریزوں کے ساتھ وفاداری کے صلے میں زمینیں حاصل کرنے کی سرگرمی کا سب سے بڑا مرکز پنجاب رہا جہاں ان جاگیردارو ں نے سیاسی اثرو رسوخ حاصل کرلیا اور اپنی جماعت یونینسٹ پارٹی بنا لی۔ تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ مسلم لیگ کو سب سے زیادہ پریشانی صوبہ پنجاب میں اٹھانی پڑی جہاں یونینسٹ پارٹی راج کررہی تھی یایوں کہہ لیں کہ ایک جاگیردار خاندان کی حکومت تھی۔ خضر حیات ٹوانہ کا خاندان رنجیت سنگھ کا وفادار تھا۔ لیکن اس سے پہلے اس خاندان کے سربراہ ملک محمد ٹوانہ نے رنجیت سنگھ سے جنگ کی اور شکست کھاکر اس کی اطاعت قبول کرلی تھی اس کے پوتے فتح محمد خان کو رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کے مخالفوں نے جیل میں ڈال دیا جسے انگریز سرکار نے رہا کردیا۔یہاں سے اس خاندان کی انگریز وفاداری کا آغاز ہوا۔ فتح محمد ٹوانہ نے بعد ازاں ملتان میں انگریزوں کے خلاف بغاوت میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور بنوں میں ان ہی کے لئے لڑتا ہوا مارا گیا۔اس خاندان کی انگریز وفاداری اور اپنے مفادات کے تحفظ کے خیال نے ہی یونینسٹ پارٹی بنائی اور مسلم لیگ کو پنجاب کے معاملات سے الگ رہنے کو کہا۔ قائد اعظم نے زندگی میں پہلی بار سول نافرمانی کی تحریک ان ہی کے خلاف چلائی۔ قیام پاکستان اور مسلم لیگ کے مطالبات کے خلاف جہاں فتوی فروش علما اکھٹے ہوگئے وہیں پنجاب کے جاگیردار خاندان بھی اس صف میں کھڑے تھے۔ پنجاب کے بغیر پاکستان کا حصول ناممکن تھا۔ مسلم لیگ 1936 کے انتخابات میں شکست سے دو چار ہوچکی تھی اور کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلم اقلیت کے ساتھ وہی سلوک کرنا شروع کردیا تھا جو انگریز اس ملک کے ساتھ کرتے آرہے تھے۔ تب بھی یہ طبقہ عام مسلمانوں کے مفادات سے منہ موڑے انگریزوں کی مراعات سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ جب 1946 ء میں مسلم لیگ نے ملک گیر کامیابی حاصل کرلی اورپاکستان کا وجود ناگزیر نظر آنے لگا تو یہی وہ طبقہ تھا جس نے عرصے تک جناح کو زچ کرنے کے بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہی وہ مفادپرست طبقہ تھا جو نہ جاگیردار تھا نہ صنعت کار ۔ وہ صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل تھا جو قیام پاکستان سے اب تک اس ملک پہ مسلط ہے۔