معزز قارئین!۔ وزیراعظم عمران خان "Police Culture" میں تبدیلی کے لئے خُود میدان میں آگئے ہیں ۔ اُنہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان بزدار کو پنجاب پولیس سے مجرمانہ ؔریکارڈ کے حامل افسروں اور اہلکاروں کو نکال باہر کرنے کا "Special Task" دے دِیا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق ’’ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ ہدایت بھی کردِی ہے کہ ’’ خیبر پختونخوا کی طرح پنجاب پولیس میں بھی مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کی "Scrutiny" (گہری تفتیش) کی جائے ‘‘۔ وزیراعلیٰ نے اِس کے لئے 6 ماہ کا وقت مانگ لِیا ہے ‘‘۔ پاک پنجاب بلکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں انگریزی دَور کا ’’ پولیس کلچر‘‘ نافذ ہے۔’’فیلڈ مارشل ‘‘ صدر محمد ایوب خان کے گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ ، امیر محمد خان کے دَور میں عوامی شاعر حبیب جالبؔ نے کہا تھا کہ … عام ہُوئی ، غنڈہ گردی ! چُپ ہے ، سپاہی با وردی! شمّع نوائے اہل سُخن! کالے باغ نے گُل کردی! معزز قارئین!۔ آج مجھے پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ جناب غلام حیدر وائیں یاد آ رہے ہیں ۔ جن کی صدارت میں مئی 1991ء کے منعقدہ اجلاس میں صوبائی وزراء اور ارکان اسمبلی نے بھی محکمہ پولیس سمیت بیورو کریسی کی شکایت کی تھی ۔ اس پر یکم جون 1991ء کو ’’نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ایس پی صاحبان کا ناشتہ‘‘ ۔ مَیں وزیراعلیٰ سردار بزدار کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہُوں ۔ گر قبول اُفتد زہے عز و شرف۔ ’’30 مئی 1991ء کو لاہور میں اسلامی جمہوری اتحاد پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بعض وزراء اور ارکان اسمبلی نے بیورو کریسی اور خاص طور پر پولیس کے روّیے کے خلاف سخت غم وغصے کا اظہار کیا۔ ایک رُکن نے انکشاف کیا۔’’ دو صوبائی وزراء چودھری پرویز اؔلٰہی اور ارشد خان لوؔدھی نے ٹیلی فون پر آئی جی پولیس پنجاب کو دو تفتیشوں کی تبدیلی کے لئے کہا لیکن آئی جی صاحب کے کان پر جوں تک نہیں رینگ سکی۔‘‘ دوسرے رکن نے وزیراعلیٰ وائیں صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’ اگر آپ 15دن کے اندر اندر آئی جی کو تبدیل نہیں کریں گے تو ہم اُن کے خلاف اسمبلی میں تحریک پیش کریں گے۔‘‘ ایک رُکن نے گلِہ کیا۔’’ہماری کیا عزّت ہے جبکہ تھانیدار بھی ہماری بات نہیں مانتا۔‘‘ ایک اور رکن نے وائیں صاحب سے کہاکہ ’’ آپ درویش ؔوزیراعلیٰ کہلاتے ہیں، اگر آپ درویش ہیں تو کسی مزار پر جا کر بیٹھ جائیں‘‘۔ انتہائی غصّے کا اظہار صوبائی اسمبلی کے رکن سہیل ضیاء بٹ نے کِیا اور کہا ۔’’ میں رکن اسمبلی ہوں اور وزیراعظم (میاں نواز شریف) کا رشتہ دار بھی لیکن اِس کے باوجود سرکاری اہلکار میری بات نہیں مانتے۔‘‘ بٹ صاحب نے وائیں صاحب کو مشورہ دیا کہ’’ جِس طرح ایران میں امام خمینی،ؔ فوجی جرنیلوں کے ناشتے ؔکرتے تھے اِسی طرح آپ کو بھی ہر صبح چھ سات ایس پی صاحبان کے ناشتے کرنے ہوں گے۔‘‘ خبروں کے مطابق ۔ ’’وائیں صاحب نے اپنے ساتھی مسلم لیگیوں کو یقین دلایا کہ ’’اگر میں آپ لوگوں کی عزت نہ کرا سکا تو کرسی چھوڑ دوں گا‘‘ تاہم وائیں صاحب نے سہیل ضیاء بٹ صاحب کی تجویز پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ، ارکان اسمبلی سمیت وائیں صاحب ،بٹ صاحب کی تقریر پر مسکراتے رہے۔ خبر نگار نے وائیں صاحب کی مسکراہٹ کی وضاحت نہیں کی لیکن، یہ نہیں لکھا تھا کہ جناب وائیں نے وہ تجویز منظور کرلی تھی یا نہیں؟۔ یوں بھی حکمرانوں کی مسکراہٹ ذو معنی ہوتی ہے۔ شاعر کے شعر کی طرح۔ شعر سننے یا پڑھنے والے اپنی اپنی مرضی کے اشعار کے مطلب نکالتے ہیں اور بعض اوقات ایسے معنی بھی نکالنے لگتے ہیں جو شاعر کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے! مجھے نہیں معلوم کہ امام خمینی، ایرانی جرنیلوں کے ناشتہ کِس طرح کرتے تھے؟ میرے ایک عزیز دوست صاحبزادہ سیّد خورشید احمد گیلانی (برادرِ عزیز ارشاد احمد عارف کے (مرحوم) چھوٹے بھائی ) امام خمینی کی برسی میں شرکت کیلئے آج ہی ایران روانہ ہونے والے ہیں۔ میںنے انہیںخاص طور پر ہدایت کی ہے کہ وہ اس مسٔلہ پر پوری معلومات لے کر آئیں تاکہ اگر وائیں صاحب، سہیل ضیاء بٹ صاحب کی تجویز مان لیں تو برادر ملک ایران کے اِس ’’انقلابی منصوبے‘‘ کو یہاں بھی نافذ کیا جا سکے اور عوام کے منتخب نمائندوں کی ناراضی دور کی جا سکے؟۔ کشمیری احباب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت خوش خوراک ہوتے ہیں، خود بھی ڈٹ کر کھاتے ہیں اور مہمانوں کو بھی ٹھونس ٹھونس کر کھلاتے ہیں۔ میں اپنے دوست اور سابق صوبائی وزیر میاں افتخار احمد تاری اور مرکز مجلسِ اقبال کے بڑے وزنی رُکن برادرم حامد مجید کی میزبانی سے کئی بار لُطف اٹھایا ہے۔ اتفاق سے امام خمینی، غلام حیدر وائیں اور سہیل ضیاء بٹ بھی کشمیری ہیں۔ یوں تو میاں نواز شریف بھی کشمیری ہیں لیکن میں اُن کا ذکر یہاں نہیں لائوں گا کہ بٹ صاحب نے ایس پی صاحبان کے ناشتے کی سکیم پر عملدرآمد کا مشورہ فی الحال پنجاب کی سطح پر وائیں صاحب کو دیا ہے۔ وائیں صاحب کے بارے میں مجھے تو یہی بتایا گیا کہ وہ چودھری ؔکہلوانے کے باوجود گوشت خور ہرگز نہیں، سبزیاں اور دالیں استعمال کرتے ہیں۔ یوں بھی جب کوئی شخص (حکمران ہو یا عام آدمی) درویشی لائن اختیار کر لیتا ہے تو وہ ’’زیستن برائے خور دن کی بجائے خوردن برائے زیستن ‘‘کے اصول پر عمل کرتا ہے لیکن ،وائیں صاحب ٹھہرے حکمران، اور حکمرانوں کو بعض اوقات خیالِ خاطر احباب کیلئے دستر خوان پر کچھ ایسی چیزیں بھی سجانے کا اہتمام کرنا ہوتا ہے جنہیں وہ خود بے شک نہ چکھیں۔ مگر یہاں تو سہیل ضیاء بٹ صاحب نے انہیں واضح طور پر گوشت خوری کا مشورہ دیا ہے اور وہ بھی انسانی گوشت کھانے کا۔ میں سوچتا ہوں اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہو گا؟۔ آپ بھی سوچئے! کہ جب اس تجویز کا کوئی مخالف! گرفت کرنے کے لئے آگے آئے تو میں اکیلا ہی کیوں پکڑا جائوں ؟آپ بھی میرے ساتھ کیوں نہ پکڑے جائیں؟ کیونکہ جب ایک جُرم کرتے ہوئے زیادہ لوگ پکڑے جائیں تو جُرم کی نوعیت کم ہو جاتی ہے۔ تصّور کیجئے!۔ ’’رات کے ساڑھے بارہ بجے ہیں۔ وائیں صاحب دوستوں کو رخصت کر کے بیڈ پر نیم دراز دیوانِ ؔحافظ سے فال نکال رہے ہیں۔ ہیڈ کک دبے پائوں کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ وائیں صاحب نظریں اٹھا کر اُس کی طرف دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں۔’’کیا ہے؟۔’’حضور! میں مداخلت کی معافی چاہتا ہوں! ۔ مَیں تو پوچھنے آیا تھا کہ آپ کل صبح ناشتے میں کیا پسند کریں گے؟’’ کل صبح ناشتے کی میز پر میرے ساتھ اور کون کون صاحب ہوں گے؟۔’’ جی مہانوں کی پوری فہرست تو آپ کے "PSO"کے پاس ہے لیکن مجھے اندازہ ہے کہ بارہ پندرہ مہمان ہوں گے اور ان میں آٹھ ارکان اسمبلی ہیں۔‘‘ ’’ارکان اسمبلی بھی! آٹھ ارکان اسمبلی ‘ سہیل ضیاء بٹ صاحب بھی ہوں گے؟’’ جی سر! وہ بھی تشریف لائیں گے سر! اور انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ اکیلے ’’ایس پی مُسلمّ‘‘ تناول فرمائیں گے؟‘‘۔ ’’ ہوں! دیکھو! تم سہیل ضیاء بٹ صاحب کے لئے ایک ’’ایس پی مُسلمّ‘‘ تیار کر لو! اور باقی مہمانوں کے لئے ایک اور ایس ،پی کی کریؔ تیار کروں سر؟‘‘۔’’ میرے لئے جُوس کا ایک گلاس دو توس اور چائے کا ایک کپ اور بس اب تم جائو!‘‘۔ آپ ایس ،پی کا ناشتہ کیوں نہیں کرتے سر؟ اِس سے تو صحت بنتی ہے اب تک آپ کے جس جس مہمان نے کسی ایس ،پی کا ناشتہ کیا ہے، اُس کی صحت ملاحظہ فرمائی آپ نے؟۔ ’’ بھئی‘ مَیں گوشت خور نہیں ہوں۔ سبزی اور دال شوق سے کھاتا ہوں۔ ایس ،پی صاحبان کے ناشتے کا رواج تو میں نے ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لئے شروع کرایا ہے۔ میں نے ایک بار ایک ایس ،پی چکھ کر دیکھا تھا مجھے تو اچھا نہیں لگا‘‘ ۔آپ کے لئے کوئی سیکرٹری ؔفرائی کر دوں سر؟ سُنا ہے یہ لوگ بھی ارکان اسمبلی کی بات نہیں مانتے!‘‘۔’’ کوئی کمشنر‘‘ ڈپٹی کمشنر، کسی خود مختار یا نیم خود مختار کارپوریشن کا چیئرمین یا ایم ۔ڈی؟’’ نہیں بھئی مجھے اُن کا بھی شوق نہیں!‘‘۔ سر آپ کو تو کھانے پینے کا بالکل ہی شوق نہیں ۔سر! آپ تو واقعی درویش ہیں سر! میں آپ کے لئے کسی ڈی ۔آئی ۔جی کی یخنی تیار کر لوں گا۔ اب میں اجازت چاہتا ہوں سر! شب بخیر خدا حافظ!‘‘ہیڈ کُک‘ آہستہ سے دروازہ کھول کر باہر نکل جاتا ہے اور وائیں صاحب پھر دیوانِ حافظ ؔسے فال نکالنے لگتے ہیں‘‘۔