لاہور (نامہ نگارخصوصی، اپنے نیوز رپورٹر سے ، 92 نیوز رپورٹ، نیوزایجنسیاں )لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ وکلا کی جرأت کیسے ہوئی ہسپتال پر حملہ کرنے کی ، ایسا تو جنگوں میں بھی نہیں ہوتا۔ لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے پی آئی سی حملہ کیس میں گرفتاروکلاکی رہائی کیلئے دائر درخواستوں پرسماعت کی۔ درخواست گزار اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا پولیس کو کسی پر تشدد کرنے کا اختیار نہیں، ہم کوئی بھارت سے جنگ لڑنے نہیں آئے ۔ جسٹس علی باقر نجفی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہاں آپ جنگ لڑنے ہی آئے ہیں۔ آپ کی ہسپتال پر حملہ کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟کیا آپ ایک وضاحت بھی دے سکتے ہیں کہ حملہ کیوں کیاگیا؟وکلا کے وکیل اعظم نذیرتارڑنے عدالت کو آگاہ کیاہم نے ٹی وی پروگرامز میں مذمت کی۔جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے آپ کے پروفیشن میں کالی بھیڑیں ہیں ،آپ اس کو وقوعہ کہتے ہیں؟ آپ کو اندازہ نہیں ہم کس دکھ میں ہیں، بڑی مشکل سے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں،دکھ اس بات کا ہے کہ آپ اس پر وضاحت دے رہے ہیں،آپ اس بات کو سرعام تسلیم کریں کہ آپ نے لاہوربارمیں پلاننگ کی ہے ۔ ہمیں آپ نے کہیں کا نہیں چھوڑا،اس طرح جنگوں میں بھی نہیں ہوتا ۔جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دیے کہ ایک ویڈیو بڑی عجیب ہے جس میں وکیل کہہ رہا ہے یہ ڈاکٹر کی موت ہے ، کیا اس کی بھی توقع ہے کہ کوئی بار کونسل اس پر کوئی کارروائی کرے ؟اعظم نذیرتارڑنے کہا وکلا برادری پی آئی سی واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتی ہے ۔ہم ملوث وکلاکے لائسنس معطل کرنے جارہے ہیں۔جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا وہ لیسکوکے ملازمین ہیں جنہوں نے موقع پر کپڑے تبدیل کئے اورافسوسناک واقعہ پیش آیا۔ہماری تمامتر کوششوں کے باوجود انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔ اس معاملے کا اینڈ (اختتام) بھی تو ہے ۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا اینڈ تو ہو گا ہی، ہم وہ کریں گے ، ہم نے حلف اٹھایا ہوا ہے ، جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے ، جو انہوں نے کیا وہ جنگل کا قانون ہے ۔ یہ بتائیں ایک درخواست میں 2 ایف آئی آرز کو کیسے خارج کیا جا سکتا ہے ؟عدالت نے درخواستوں پر عائد اعتراضات ختم کرتے ہوئے مقدمات میں نامزد نہ کئے گئے وکلا کی بازیابی کی درخواست پر سی سی پی او لاہور سے رپورٹ طلب کر لی۔عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ بتائیں ان وکلاکو مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے ؟جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا 16 دسمبر کو رپورٹ پیش کر دیں گے ، مہلت دی جائے ۔احسن بھون ایڈووکیٹ نے استدعا کی جو وکیل زخمی ہیں انکا میڈیکل کرانے کا حکم دیا جائے ۔ عدالت نے انسداد دہشتگردی عدالت کے میڈیکل کرانے کے حکم پر عملدرآمد کرانے کی ہدایت کردی۔عدالت کو بتایا گیا کہ وکلا کو میڈیکل کرانے لیکر گئے تو ڈاکٹروں نے علاج کرنے سے انکار کر دیا۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا اب آپ کو اندازہ ہوا؟ ہائیکورٹ نے وکلاکی گرفتاریوں کیخلاف درخواست کا تحریری حکمنامہ جاری اور مقدمات کاریکارڈطلب کرتے ہوئے سماعت 16دسمبر تک ملتوی کردی۔قبل ازیں جسٹس انوار الحق پنوں پر مشتمل سنگل بنچ نے کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے فائل چیف جسٹس ہائیکورٹ کو واپس بھجوادی تھی ۔چیف جسٹس ہائیکورٹ نے جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں نیا دو رکنی بنچ تشکیل دیا جس نے دوپہر کو کیس کی سماعت کرنا تھی تاہم جسٹس اسجد جاوید گورال کی عدم دستیابی کے باعث سماعت نہ ہوسکی اور فائل دوبارہ چیف جسٹس کو ارسال کر دی گئی۔ بعدازاں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اعجاز احمد ایڈووکیٹ و دیگر کی درخواستوں پرسماعت کی تو پولیس نے وکلا کیخلاف دہشتگردی دفعات کے تحت مقدمات درج ہونے کی رپورٹ پیش کی۔ پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات شامل کر دی گئی ہیں اور اس حوالے سے تمام ثبوت بھی موجود ہیں۔ دوران سماعت وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجودتھی۔ دریں اثناء انسداد دہشتگردی عدالت نے پی آئی سی حملہ کیس میں مزید چار وکلاکو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔ عدالت نے 46 وکلا کی درخواست ضمانت پر بھی سماعت کی۔ عدالت نے تھانہ شادمان کے ایس ایچ او کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آج جواب طلب کر لیا۔ادھر پنجاب سیف سٹیزاتھارٹی نے پی آئی سی کیس کی تمام ویڈیوزپولیس اورمتعلقہ اداروں کو فراہم کر دی ہیں ۔ان میں حملے کے آغازسے اختتام تک تمام پہلوئوں کی ویڈیوزہیں۔