مجھ پہ کیچڑ نہ اچھالے مرے دشمن سے کہو اپنی دستار سنبھالے مرے دشمن سے کہو وہ عدو مرا ہے اس کو یہ ذرا دھیاں رہے اپنا قد کاٹھ نکالے مرے دشمن سے کہو اس سے پہلے کہ میں اشعار کی اپنے موضوع کے ساتھ مناسبت کی بات کروں، میں کرشن چندر کے ایک افسانے کی بات کروں گا کہ جس میں دو ڈرائیور بسوں کی دوڑ لگاتے ہیں یہ تجربہ آپ سب اپنی زندگیوں میں یقینا کر چکے ہونگے کہ ڈرائیور ایک ہی سائیکی رکھتے ہیں کہ دوسرا آگے نہ نکل جائے۔ اس افسانے میں بھی دو ڈرائیور اپنی اپنی بس کو سپیڈاپ کرتے جا رہے ہیں کہ ایک دوسرے سے آگے نکلیں۔ ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے دونوں ڈرائیور ہسپتال لائے جاتے ہیں اتفاق دیکھیے کہ اپریشن روم سے دو سٹریچر نکلتے ہیں وہ دونوں ڈرائیور ان پر پڑے ہیں ایک ڈرائیور دوسرے ڈرائیور کو دیکھتا ہے دونوں آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں۔ ایک ڈرائیور نے اپنے سٹریچر کھینچنے والے سے کہا ہے ڈرا جلدی کرو یہ ساتھ والا سٹریچر آگے نہ نکلنے پائے۔ کیا آپ کو اسی طرح کی صورت حال اس وقت نظر نہیں آ رہی کہ کورونا نے حشر اٹھا رکھا ہے پوری قوم لاک ڈائون میں سراسیمگی کے عالم میں ہے غریب بھوک سے مر رہے ہیں معیشت کا حال دگرگوں ہے۔ ’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘صرف محاورہ ہی نہیں رہ گیا۔ واقعتاً لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہیں امداد بھی قسمت والوں کو ملتی ہے۔ ایسے میں صرف سیاست ہو رہی ہے ایک دوسرے کے خلاف بیان داغے جا رہے ہیں۔ سراج الحق نے غلط نہیں کہا کہ وفاق اور سندھ لڑائی میں مصروف ہیں یعنی صحت کو بھی سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے درست کہا کہ مصیبت کے وقت جنگل کے جانور بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ مجھے صوفی تبسم کا شعر کس مناسبت سے یاد آیا: ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو اس میں شک نہیں کہ عمران خان خلوص کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور متفکر بھی ہیں کہ کورونا والا معاملہ بگڑ نہ جائے کہ ہمارے پاس مریضوں کو سنبھالنے کی گنجائش بھی نہیںاور معیشت کو قابو میں رکھنے کی بھی سکت نہیں۔ یہ بھی درست کہ ان کے آواز اٹھانے پر یاقسمت کی یاوری کے باعث ایک سال کے لئے انہیں قرض کی قسط بھی ادا نہیں کرنا پڑے گی۔ لاک ڈائون میں نرمی بھی ان کی عوام سے ہمدردی ہے مگر یہ تو عوام کو چاہیے سوچیں کہ وہ اس نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا نقصان نہ کر بیٹھیں۔ کیسز بڑھتے جا رہے ہیں حکومت کو معاملہ سنبھالنا ہے اور معیشت بھی نے سٹیٹ بینک نے 2فی صد شرح سود کم کر دی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے ایک ارب اٹھتیس کروڑ ڈالر کی گرانٹ منظور کر لی ہے۔ عوام کی بھی ذمہ داری ہے جو مخیر حضرات نبھا رہے ہیں اور جماعت اسلامی اور الخدمت نے بہت نیک نامی کمائی ہے کہ سب ان کے لئے رطب اللسان ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں جو عمران خاں کو بھکاری کہہ رہے ہیں۔ بھائی جان وہ اور کیا کرے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے کون سے اپنے خزانے عوام کے لئے کھول دیے ہیں۔ کم از کم لوٹی دولت ہی کو ہوا لگوا لیتے۔ میں تو خود لکھ رہا ہوں کہ اس موقع پر سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ مگر اس بات کا جواب بھی تو دیں کہ سندھ ہائی کورٹ پوچھ رہی ہے کہ اڑھائی لاکھ راشن بیگ کہاں بانٹے؟ ہم تو خان صاحب پر بھی معترض تھے کہ امدادی کام کرنے والے صرف ٹائیگرز نہ ہوتے رضا کار ہوتے اور سب جماعتوں کے ہوتے۔ کچھ نہ کچھ سب کو سوچنا پڑے گا چلیے شہزاد احمد کا کہنا ہی مان لیں: اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے یہ لڑائی کسی ایک سطح پر نہیں بلکہ تہہ در تہہ ہے۔ خود پی ٹی آئی میں بھی ہم آہنگی نہیں۔ جو زیادہ خطرناک ہے وہ مذہبی فرقوں میں ہے کہ ایک فرقہ حکومت کے ساتھ مل کر دوسرے فرقوں کو قابو کرنے کا خواہاں ہے۔ علماء کی اے پی سی سیاسی اے پی سی سے زیادہ اہم ہے۔ علماء پر پھبتیاں کسنے سے کام نہیں چلے گا کہ جس کا مظاہرہ فواد نے کیا ہے کہ منیب الرحمن کو چاند نظر نہیں آتا کورونا کیا نظر آئے گا۔ مولانا منیب الرحمن کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ فواد نے اپنی عزت میں اضافہ نہیں کیا وہ پہلے بھی اس رویے کے باعث تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔ مساجد میں نماز اور جمعہ کے حوالے سے عوام کو مطمئن کرنا علماء کرام کا کام ہے وہ ٹھیک دلیل سے انہیں خطرے سے آگاہ کریں۔ اسے ضد اور انا کا مسئلہ ہرگز نہ بنائیں۔ ایمان سب کو عزیز ہے اور متاع جاں سے بھی زیادہ قیمتی ہے جو بھی علما کی مشاورت سے ہو۔ ہماری مرغزار کالونی کی خدیجتہ الکبریٰ مسجد میں بھی سینی ٹائیزر گیٹ نصب ہو گیا ہے اس موقع پر کالونی کے صدر چودھری شہزاد احمد چیمہ‘ ملک محمد شفیق‘ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ اسلم یزدانی اور مسجد ہذا کے صدر ریاض صاحب بھی موجود تھے۔ یقین مانیے ان برگزیدہ لوگوں کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے مسجد کو 3کنال میں کشادہ کیا اور دل کھول کر اس کی تزئین پر خرچ کیا۔ پتہ چلا کہ اس کارخیر کے پیچھے بھی جماعت اسلامی ہے اس سے ایک اور بات اچھی سامنے آئی ہے کہ ایسے کام فرقہ بندی سے بالا ہو کر کیسے جا رہے ہیں۔ ابھی میں پڑھ رہا تھا کہ جماعت نے ثریا عظیم ہسپتال میں بھی کورونا وارڈ قائم کیا۔3682مساجد میں اینٹی کورونا سپرے کروایا۔ تھانوں‘ چرچوں اور دوسری جگہ بھی۔ بس اسی سپرٹ کی ضرورت ہے۔ مذہب بے زار لوگ اہل ایمان کا جذبہ دیکھیں۔عوام کو کام چاہیے باتیں نہیں۔ اب ایک وضاحت میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمیں پڑھنے والے ہمیں بھی معاف نہیں کرتے۔ ہمیں بھی لوگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں پوچھنے والوں نے پوچھا کہ آپ کلیئر نہیں ہیں۔ اپنے پڑھنے والوں کو کنفیوژ کر رہے ہیں۔ صاف بتائیں کہ کورونا ہے یا نہیں۔ میں نے ان سب سے درخواست کی ہم لکھنے والے بھی اسی طرح کنفیوژ ہیں جس طرح کئی ڈاکٹر اور میڈیا پرسنز۔وہی جو کبھی عدم نے کہا تھا: دنیا نے واقعات و حوادث کی شکل میں جو کچھ دیا مجھے وہی لوٹا رہا ہوں میں