یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے اور پنجاب کا وزیر اعلیٰ انہوں نے غلام حیدر وائیں مرحوم کو چنا‘ غلام حیدر وائیں پرانے مسلم لیگی کارکن تھے‘1985ء سے مسلسل پنجاب اسمبلی کے رکن چلے آ رہے تھے اور اپنی دیانتداری کے علاوہ مرنجاں مرنج شخصیت کی بنا پر حکمران جماعت کے تمام دھڑوں کے لئے یکساں قابل قبول تھے‘ وزیر اعلیٰ مگر وہ ان خوبیوںکی بنا پر نہیں بلکہ کمزور شخصیت کے سبب بنائے گئے‘ صوبے کا کاروبار میاں شہباز شریف چلایا کرتے جو اس وقت اسمبلی کے رکن تھے نہ حکمران جماعت کے کسی منصب پر فائز۔ وائیں صاحب سے پہلے میاں نواز شریف دو بار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے انتظامی سربراہ رہ چکے تھے وائیں صاحب کوو زارت اعلیٰ سنبھالے چندماہ ہوئے تھے کہ صوبے کے بعض اضلاع بالخصوص لاہور کے گردو نواح گوجرانوالہ اور شیخو پورہ سے امن و امان کی خراب صورتحال کی اطلاعات تواتر سے موصول ہونے لگیں‘ میاں صاحب ہفتے میں اڑھائی دن لاہور میں گزارا کرتے‘ انہیں سرکاری کے علاوہ غیر سرکاری ذرائع سے بھی‘ ڈکیتی‘ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کی اطلاعات ملیں اور پتہ چلا کہ ان وارداتوں میں بعض بااثر خاندانوں کے علاوہ منتخب نمائندے ملوث ہیں تو وزیر اعظم نے امن و امان کا چارج اس وقت کے گورنر اور اپنے قابل اعتماد ساتھی میاںمحمد اظہر کو سونپا اور فری ہینڈ دیتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ وہ پنجاب کو کرائم فری صوبہ بنائیں۔ میاں اظہر بطور میئر لاہور صوبائی دارالحکومت کو تجاوزات سے پاک کرکے نیک نامی کمانے کے علاوہ اپنی انتظامی صلاحیت اور کسی قسم کا دبائو قبول نہ کرنے کی اہلیت و عادت کا مظاہرہ کر چکے تھے۔ میاں محمد اظہر نے اختیارات ملتے ہی گوجرانوالہ اور شیخو پورہ کے متاثرہ علاقوں سے قابل اعتماد رپورٹیں منگوائیں‘ دیانتدار اور اہل پولیس افسروں کو ٹاسک دیا اور چند دنوں میں ایسے لوگ گرفتار ہو گئے جن کا نام زبان پر لاتے ہوئے پولیس افسر و اہلکار تھر تھرکانپا کرتے تھے۔ حکمران جماعت کے ایک بااثر رکن اسمبلی کے والد اور کئی ارکان اسمبلی کے عزیز و اقارب گرفتار ہوئے تو پنجاب اسمبلی کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں میں تھرتھلی مچ گئی‘ اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں‘ ڈاکوئوں کے سرپرست اور بذات خود جرائم پیشہ منتخب عوامی نمائندوں نے بھاگ دوڑ کی مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی بالآخر کائیاں ارکان اسمبلی نے وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں مرحوم کو قائل کیا کہ یہ آپ کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ کے بغیر وزارت اعلیٰ کس کام کی اور پولیس و انتظامیہ لاء اینڈ آرڈر کے سلسلے میں گورنر کو جوابدہ ہو تو وزیر اعلیٰ بے چارے کی کیااوقات‘ یہ وزیر اعلیٰ کے منصب اور غلام حیدر وائیں کی بے داغ شخصیت کی توہین ہے۔ وائیں صاحب شریف خاندان کے سرپرست بزرگ صحافی‘ کئی دیگر قابل دوستوں کو لے کر میاں محمد شریف مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے‘اپنی بے بسی اور بے توقیری کا رونا رویا اور پارلیمانی پارٹی میں بے چینی کے نتائج و مضمرات سے آگاہ کیا۔ چنانچہ ڈیڑھ دو ہفتے بعد پنجاب کو لٹیرے‘ جرائم پیشہ اور اغوا کار گروہوں کے حوالے کر کے وزیر اعلیٰ کو بااختیار بنا دیا گیا۔ حق بحقداررسید۔ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں وفاقی حکومت کے اتحادیوں میں اچانک بے چینی نظر آنے لگی‘ ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے‘ بی این پی‘ بی اے پی اور مسلم لیگ (ق) سب نے عمران خان کے انداز حکمرانی‘ اتحادیوں سے کئے گئے وعدوں اور ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے شکایات کے انبار لگا دیے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے اتحادی چودھری برادران کی شہرت وضعدار اور دوستوں کے دوست سیاستدانوں کی ہے‘ جو جنرل (ر) پرویز مشرف کا ساتھ نبھاتے نبھاتے 2008ء کا الیکشن ہار گئے اور اف تک نہ کی‘ حالانکہ انتخابات سے کئی ماہ قبل پیپلز پارٹی سے معاہدہ کر کے فوجی آمر نے چودھری خاندان اور مسلم لیگ(ق) کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور اپنی سیاسی موت کے پروانے پر دستخط کئے‘ اس قدر وضعدار خاندان بھی اگر عمران خان اور وفاقی حکومت سے شاکی مگر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان خان بزدار سے مطمئن ہو تو آدمی کو خواہ مخواہ شک گزرنے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے‘ تمام اتحادیوں میں بے چینی اور ایک ہی نوعیت کی شکایات کی ٹائمنگ کا تجزیہ ہو ہی رہا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے بیس ارکان کا ایک شاکی گروپ سامنے آ گیا جس کے مطالبات چودھری برادران سے ملتے جلتے تھے۔ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں امتیازی سلوک‘ ارکان اسمبلی سے بیورو کریٹس کی بدسلوکی‘ اپنے اپنے ضلع میں افسروں کے خالصتاً میرٹ پر تقرر و تبادلوں کی شکائت وغیرہ وغیرہ ۔1985ء سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز بٹورنے‘ حلقوں میں من پسند افسروں کی تعیناتی سے اپنی سیاست چمکانے اور مخالفین کی سرکوبی کرنے کی عادت پڑ چکی ہے اور ہر وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ نے حلقہ جاتی سیاست کے ذریعے نہ صرف ارکان اسمبلی کو قابو کیا بلکہ ترقیاتی فنڈز سے اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کا معاشی مستقبل سنوارا۔ بیورو کریسی بالخصوص پولیس کے معاملات میں ارکان اسمبلی کی مداخلت نے محکمے کی کارکردگی اور مورال پرمنفی اثرات مرتب کئے۔ نوبت باایں جارسید کہ بار بار اعلیٰ افسران تبدیل کرنے کے باوجود امن و امان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے نہ بیورو کریسی کی پرفارمنس سے عوام مطمئن‘ کرپشن کے عفریت نے بھی ترقیاتی فنڈز سے جنم لیا اور اب پورے معاشرے میں پنجے گاڑ چکا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں گڈ گورننس کے لئے عمران خان نے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو سیاسی اثرورسوخ اور مداخلت سے آزاد کیا تو توقع یہ کی جانے لگی کہ اب حالات بہتر ہوں گے اور زوال پذیر انتظامی ڈھانچہ عوام کی مشکلات کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا لیکن پینتیس سال کے عادی منتخب عوامی نمائندوں کے علاوہ ارکان کابینہ اور اتحادیوں کو یہ بندوبست ہضم نہیں ہو پا رہا اور بے چینی کی ایک لہر ہے جس نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بزدار نے کبھی بے اختیاری کا رونا نہیں رویا اور ارکان اسمبلی نے ہمیشہ اس کی مروّت اور وضعداری کی تعریف کی اس کے باوجود اتحادی مضطرب ہیں اور بیس ارکان اسمبلی بے چین اور تجزیہ نگار حیران کہ کوئی معشوق ہے اس پر دہ زنگاری میں۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے بعد عمران خان اور چودھری برادران کے تعلقات میں سردمہری کا تذکرہ ہوتا رہا ۔چودھری پرویز الٰہی کے واضح اور دو ٹوک بیان کے بعدبھی مولانا فضل الرحمن سے چودھری صاحب کی ملاقاتوں سے پھیلا غلط تاثر دور نہ ہوااس بنا پر بعض تجزیہ نگار یہ اندازے لگا رہے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی مسلم لیگ(ن) کے تعاون سے صوبے کی وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر میری ذاتی رائے میں جہاندیدہ چودھری برادران شریف خاندان پر اعتماد نہیں کریں گے خوب جانتے ہیں وہ موجودہ حکومت کو گرانے کے لئے ان کا کندھا استعمال کریں گے‘ اقتدار میں بنیادی حصہ کبھی نہیں دیں گے کہ یہ ان کی سرشت میں نہیں‘ البتہ سردار عثمان بزدار کو مضبوط اور بیورو کریسی کے اختیارات محدود کرنے کے لئے وہ ہر حربہ استعمال کر سکتے ہیں کہ حلقہ جاتی سیاست میں یہ ان کے مفاد کا تقاضا ہے۔ پریشر گروپ کا مقصد بھی عمران خان کے وضع کردہ نئے انتظامی ڈھانچے کو ناکامی سے دوچار کرنا اور ایک ایسے وزیر اعلیٰ کو غلام حیدر وائیں کی طرح اختیارات کا مرکز بنانا ہو سکتا ہے جو اتحادیوں کے علاوہ ارکان اسمبلی کی ہر جائز و ناجائز فرمائش کو پوری کرنے کے لئے مستعد و بے تاب ہو اور کبھی حرف شکائت زبان پر نہ لائے۔ نواز شریف دور کے واقعہ سے موجودہ بے چینی کی مشابہت محض اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔مگر تاریخ عموماً اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یہ بزدار کا کارنامہ ہے تو وسیم اکرم پلس کو داد دیں۔ ع ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی