کابل پر فتح مندی کے تین ہفتے بعد‘افغانستان میں طالبان کی تینتیس رکنی کابینہ کے اعلان کے ساتھ ہی، امارات اسلامی افغانستان کی عبوری حکومت کا اعلان عمل میں آ گیا ہے‘جس کے مطابق طالبان کی مشاورتی کونسل رہبر شوریٰ کے سربراہ ملا محمد حسن اخوند اس عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے‘جس کے بعد سے افغانستان کے معاملات بہتری کی طرف بڑھنے شروع ہو گئے ہیں‘موجودہ افغان یا طالبان لیڈر شپ ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہ کر عالمی برادری سے دوستانہ تعلقات کی خواہاں ہے۔جس کا لازمی اور یقینی راستہ مذاکرات باہمی گفت و شنید ،مکالمہ اور موثر رابطہ ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے افغانستان کو ایشیا کا دل کہا تھا‘ان کے خیال میں افغانستان کی امن و سلامتی میں پورے ایشیا کا امن و استحکام اور ترقی و سلامتی مضمر ہے اور افغانستان کے اندر افراتفری‘بدامنی‘فساد اور عدم استحکام کی وجہ سے پورے براعظم ایشیا میں عدم استحکام اور فساد ہو گا۔ علامہ اقبالؒ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں افغان اور افغانستان کی اہمیت کے بارے میں بڑی واضح اور شفاف پیشین گوئی کی تھی: آسیا یک پیکر آب و گل است ملّت افغاں درآں پیکر دل است از فساد اْو فساد آسیا درکشاد اْو کشادِ آسیا یعنی’’ایشیا آب و خاک کا محض ایک پیکر ہے‘جب ملت افغان اس پیکر میں ایک دل کی حیثیت کی حامل ہے‘اس کی تباہی سارے ایشیا کی تباہی ہے اور اس کی اصلاح سارے ایشیا کی اصلاح ہے‘‘ علامہ اقبالؒ اس امر کے قائل بلکہ داعی تھے کہ اگر بلادِ اسلامیہ اغیار کے تسلط اور ان کے ظلم اور جبر و استبداد سے نجات حاصل کر کے آزاد‘خود مختار اور طاقتور بن جائیں‘ تو وہ دن دور نہیں جب ابلیس کی کفن چور ذریت پر مشتمل انجمن اقوام کی جگہ‘اسلامی ممالک پر مشتمل‘ایک آزاد اور غیر جانبدار’’اسلامی جمعیت اقوام‘‘ وجود میں آ جائے گی۔جس سے کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے گی اور پوری دنیا اتحاد ویکجہتی اور امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے گی۔علامہ اقبالؒ نے اتحاد اسلامی کے اس وفاقی اور جمہوری تصور میں افغانستان مرکزی اہمیت کا حامل تھا‘دنیائے اسلام کی حیات نو کے لئے اقبال نے ہمیشہ دہلی کی بجائے کابل کی طرف توجہ مرکوز فرمائی: ہزار مرتبہ کابل نکوتراز دلی است کابل سے پھوٹنے والے طاقت کے سرچشمے اسلامیان ہند کو ہمیشہ سے طاقت اور قوت بخشتے رہے۔یہاں تک کہ انگریز نے بھی اس وقت تک دہلی کی نحیف و نزار سلطنت پر ہاتھ نہ ڈالا‘جب تک پنجاب پر قابض ہو کر دہلی اور کابل کی رابطہ لائن کو نہ توڑا۔علامہ اقبالؒ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت کے ہمیشہ معترف رہے اور اس امر پر نازاں رہے کہ یہ سرزمین طلسم افرنگ سے آزاد اور اس کے باشندے غیرت دین سے بہرہ مند ہیں۔انہوں نے بارہا اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ قدیم افغانستان بھی دنیا کا بڑا تجارتی مرکز اور اہم تجارتی شاہراہ کا حصہ تھا‘ایشیا کی تاریخ اور سیاست میں اس ملک کی حیثیت بنیادی ہے اور رہے گی۔آپ نے افغانوں اور پٹھانوں کی تاریخ ان کی سیرت و کردار اور علاقائی و عالمی سیاست میں ان کے منظر و مقام کے بارے میں جو پیش گوئی کی‘صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کی حقیقت دنیا کے سامنے موجود ہے۔بقول اقبال: افغان باقی‘ کہسار باقی الحکم للہ‘ الملک للہ اقبال نے اکتوبر 1933ء میں افغانستان کا دورہ کیا جس کی دعوت انہیں نادر شاہ نے دی تھی‘نادر شاہ‘اقبال کے دیرینہ دوست تھے اور یہ تعلق اس زمانے سے تھا جب وہ جرنیل محمد نادرخان کی حیثیت سے پیرس میں افغانستان کے سفیر تھے۔نادر شاہ کی والدہ لاہوری تھی، جس کے سبب نادر شاہ ازخود بھی اردو اچھی بول اور سمجھ لیتے تھے۔ مشہور ہے کہ اقبال کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 1929ء میں لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ہوئی، جب نادر شاہ افغانستان جاتے ہوئے یہاں رکے تھے۔نادر شاہ کا قد زیادہ لمبا نہ تھا اور ذرا دبلے پتلے بھی تھے۔اقبال کو دیکھ کر کہنے لگے میں تو سمجھتا تھا، آپ ایک لمبی چوڑی داڑھی والے بزرگ ہونگے‘اس پر اقبالؒ نے جواب دیا کہ میرا بھی یہ خیال تھا کہ آپ کوئی قوی ہیکل قسم کے پہلوان ہونگے‘بہرحال یہ ایک خوش طبعی تھی جو دونوں کے دوستانہ تعلقات کی غماز ہے۔یہ وہ ایام تھے جب نادر شاہ افغانستان کی تباہ حالی پر برصغیر کے مسلمانوں سے اعانت اور امداد کا خواہاں تھا۔ روایت ہے کہ اقبال نے نادر شاہ کو دس ہزار روپیہ پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ میری کل پونجی اس وقت یہی رقم ہے، میں چاہتا ہوں آپ اس مہم میں اسے بطور چندہ قبول کر لیں۔نادر شاہ نے اسے لینے سے معذرت کی۔ اقبالؒ کے اصرار پر نادر شاہ نے کہا کہ یہ سرمایہ آپ اپنے پاس رکھیں میں بوقت ضرورت آپ سے منگوا لوں گا۔اس کا مقصد یہ ہے کہ اقبالؒ کے نزدیک افغانستان کی سالمیت اور آزادی مسلمانان ہند اور وسط ایشیا کی بقا کے لئے کس قدر اہم تھی۔ 1933ء میں اقبالؒ نے نادر شاہ کی دعوت پر وہاں کی تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے افغانستان کے دورے کے موقع پر فرمایا تھا کہ تعلیم یافتہ افغانستان۔۔۔ مسلمانان برصغیر کے بہترین مفاد میں ہے۔کابل میں ایک نئی یونیورسٹی کا قیام اور افغانستان کی سرحد پر اسلامیہ کالج پشاور کو ایک دوسری یونیورسٹی میں منتقل کرنے کی اسکیم افغان قبائل کی فلاح و بہبود کے لئے ازحد ضروری ہے۔اسی سفر میں اقبال نے کہا تھا کہ یورپ نے اپنی اس ترقی میں سارا زور بحری طاقت پر صرف کیا ہے اور ہر قسم کی تجارتی آمدورفت اور سیرو سیاحت کے راستے دریائی رکھے ہیں اور اپنے انہی جہازوں کے ذریعے مشرق کومغرب سے ملا دیا ہے لیکن اب یہ نظر آ رہا ہے کہ ان بحری راستوں کی یہ حیثیت جلد فنا ہو جائے گی اور آئندہ مشرق وسطیٰ یعنی سنٹرل ایشیا کا راستہ جو مشرق و مغرب کوملائے گا ،وہ بحری کی بجائے بری اور خشکی کا ہو گا، تجارتی قافلے اب موٹروں، لاریوں، ہوائی جہازوں اور ریلوے کے ذریعہ مشرق و مغرب میں آئیں جائیں گے اور چونکہ یہ پورا راستہ اسلامی ملکوں سے ہو کر گزرے گا۔ اس لئے اس انقلاب سے ان اسلامی ملکوں میں عظیم الشان اقتصادی و سیاسی ترقی رونما ہو گی اور افغانستان کو بھی ماضی کی طرح دنیا کی شاہراہ بننے کا موقع میسر آئے گا۔ وفد کی واپس روانگی پر‘نادر شاہ نے گزارش کی کہ وہ واپس جا کر مسلمانوں کو ہمارا یہ پیغام پہنچا دیں کہ آج ہم کو اور ان کو اتحاد و اتفاق کی سب سے زیادہ ضرورت ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حالت کو درست کرنے میں معاونت کرنی چاہیے۔اس نے مزید کہا کہ میری کوشش ہے کہ افغانستان میں دین و دنیا کو مجتمع کروں اور ایک ایسے اسلامی ملک کا نمونہ بنائوں‘جس میں قدیم اسلام اور جدید تمدن کے محاسن یکجا ہوں۔میں افغانستان کو صرف افغانوں کا ملک نہیں سمجھتا‘بلکہ مسلمانوں کا ملک سمجھتا ہوں اور چاہتا ہوں ہمارے مسلمان بھائی اس کو اپنا ملک سمجھیں۔ میرے بھائیوں کو کہہ دیجیے گا کہ دنیا میں ایک نئے انقلاب کا مواد تیار ہو رہا ہے‘ضرورت ہے مسلمان اپنی عدد‘اقتصادی اور تعلیمی استعداد میں اضافہ کر کے خود کو اس کے لئے تیار رکھیں۔