وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اینٹی منی لانڈرنگ کمیٹی اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سیکرٹریٹ بنانے کی منظوری دیدی گئی ہے۔ وزارت داخلہ میں ایف اے ٹی ایف سیل پہلے ہی قائم کیا جا چکا ہے جس میں ایف آئی اے کے تین افسران کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ سیل ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے تحت کام کرے گا۔ پاکستان پچھلے ڈیڑھ سال سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بلیک لسٹ قرار دیے جانے کے خدشے کا شکار ہے۔ چند ماہ قبل فنانشل ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا شدید خطرہ تھا تاہم وزیر اعظم عمران خان کے دوست ممالک سے مسلسل رابطوں کے باعث اجلاس کے اراکین ترکی‘ چین اور ملائشیا نے پاکستان کی مدد کی۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو دس نکاتی پروگرام دیا جس پر عمل کر کے بلیک لسٹ ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل کی صورت میں پاکستان جیسی غیر دستاویزی معیشت شدید متاثر ہوتی ہے۔ دوسری طرف تاجر اور کاروباری برادری ان شرائط کو قومی پالیسی کا حصہ بنانے کی مخالفت کر رہی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ ہے کہ ہر شہری کے لئے نیشنل ٹیکس نمبر کا حامل ہونا ضروری ہے۔ کھلی مارکیٹ میں 500ڈالر سے زائد کی نقدی تبدیل کرانے کے لئے شناختی کارڈ کی کاپی فراہم کی جائے۔ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ رقم کی منتقلی پر نظر رکھے اور ان اکائونٹس کے خلاف کارروائی کرے جہاں سے رقوم دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے 10نکاتی ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے متعدد عسکریت پسند گروپوں کو کالعدم قرار دیا ہے۔ کئی گروپوں کے اثاثے ریاست نے ضبط کر کے اپنی تحویل میں لے لئے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف دہشت گردی کے لئے فنڈز اور منی لانڈرنگ کی نگرانی کے لئے کام کرتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی علاقائی تنظیم ایشیا پیسفک گروپ کی صورت میں موجود ہے۔ ٹاسک فورس کے اجلاس میں ایشیا پیسفک گروپ نے دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کی ذیل میں آنے والی رقوم کی منتقلی روکنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کا جائزہ لیا۔ ایشیا پیسفک گروپ نے اپنی سفارشات اکتوبر 2019ء کے حالیہ اجلاس میں پیش کیں۔ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عملدرآمد میں بعض رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ایف اے ٹی ایف اور ایشیا پیسفک گروپ میں بھارت کا اثرورسوخ ہے۔ بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان سے کشمیر سمیت تمام معاملات کو اس وقت تک بھارتی منشا کے مطابق حل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور نہ کر دیا جائے۔ بھارت نے سب سے پہلے پاکستان کے ہمسایہ ممالک سے معاملات کئے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو سال قبل سالانہ تجارت کا حجم 5ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ اب یہ تجارت ایک سے دو ارب ڈالر تک ہو چکی ہے۔ پاکستان اور ایران کی تجارت پہلے ہی امریکی پابندیوں کے باعث زبوں حالی کا شکار تھیں۔ بھارت نے امریکہ سے درپردہ معاملات طے کر کے ایران سے سستا تیل خریدنا شروع کیا۔ چاہ بہار کا منصوبہ مشترکہ طور پر مکمل کیا اور ایران سے ان شعبوں میں تعاون بڑھانے کی کوشش کی جن میں پاک ایران تعلقات مستحکم دکھائی دیتے ہیں۔ یہی نہیں نریندر مودی نے خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو کاروباری تعلقات کے ذریعے نشانہ بنا لیا۔ پاکستان کے دو بے لوث مسلم بھائیوں ترکی کے ساتھ ایک نیول منصوبہ تیار کیا اور ملائشیا کے ساتھ کاروباری منصوبوں کو استعمال کیا لیکن آفرین ہے ان دونوں ملکوں کی قیادت پر‘ انہوں نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کی تمام ترغیبات کو ٹھوکر مار دی۔ دراصل منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے فنڈز کو سنگین معاملہ بنانے میں سارا کردار بھارت کا ہے جو ہمارے انتظامی اور مالیاتی ڈھانچے میں پائی جانے والی خامیوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ پاکستان سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے وہ ممالک اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کی معیشت کا بڑا حصہ منی لانڈرنگ سے رواں دواں ہے۔ مذہبی جماعتیں یا دینی امور کی تبلیغ کرنے والے سارے ادارے دہشت گردی نہیں ہوتے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے جہاں 30لاکھ کے قریب غریب بچے ایسے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں انہیں روٹی کپڑا اور رہائش کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد یتیموں‘ بیوائوں اور بے آسرا افراد کی مدد کے لئے چندہ دیتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کو یہ بات سمجھائے جانے کی ضرورت ہے کہ چندے کی ایسی رقوم کسی بدامنی اور انسانیت دشمن مقصد پر خرچ نہیں ہوتیں بلکہ ایسی رقوم سے فلاح و بہبود کے عظیم منصوبے سرانجام دیئے جا رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے معاملات پر پاکستان کو پوری سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وزیر اعظم نے وفاقی وزیر تجارت حماد اظہر کو پوری طرح اس معاملے کی نگرانی کی ذمہ داری تفویض کر رکھی ہے۔ کروڑوں بینک اکائونٹس کا استعمال دیکھنا‘ دہشت گردوں کی تنظیموں اور حامیوں کی نگرانی کرنا‘ کاروباری برادری کو عالمی دبائو سے متعلق آگاہ کر کے ضروری اصلاحات پر آمادہ کرنا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری معیشت کو دستاویزی بنانا معمولی ہدف نہیں ان تمام معاملات کا تعلق پاکستان کی معاشی سلامتی سے ہے جس کے لئے متعلقہ امور میں ماہر افراد کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں۔ ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ قائم ہونے سے ٹاسک فورس کے ایکشن پلان پر عملدرآمدمیں آسانی ہو گی اور الجھے معاملات کو سلجھانے کا ایک انتظامی ڈھانچہ میسر آ سکے گا۔