پاکستان بلیک لسٹ میں جانے سے تو بچ گیا لیکن گرے لسٹ سے جان نہیں چھڑا سکا۔گرے لسٹ دراصل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ایک وقتی یا عبوری فہرست ہوتی ہے، جس میں ان ممالک کو رکھا جاتا ہے، جن پرمنی لانڈرنگ نہ روکنے کا اندیشہ ہوتا ہے، جونہی یہ اندیشہ دور ہو جائے، ملک کا نام فہرست سے نکال دیا جاتا ہے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان کو بدستور زیرِ نگرانی یعنی 'گرے لسٹ' میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ادارے کے صدر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جن 27 سفارشات پر عملدرآمد کے لیے کہا گیا تھا ان میں سے 21 پر عمل ہو رہا ہے تاہم جب تک پاکستان باقی چھ سفارشات پر عملدرآمد نہیں کرتا اس کا درجہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے یقیناً اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے لیکن اسے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کا خطرہ اس وقت تک نہیںٹلے گا جب تک وہ ان چھ اہم سفارشات پر عملدرآمد نہیں کر لیتا جن پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔ اب پاکستان کو فروری 2021ء تک ان تمام سفارشات پر عمل کرنے کا وقت دیا گیا ہے جن پر تاحال کام نہیں ہو سکا۔ ایف اے ٹی ایف کے مطابق جن چھ نکات پر پاکستان کو ابھی عمل کرنا ہے ان میں پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہے کہ اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کی مالی معاونت کی بڑی سطح پر چھان بین کریں اور اس کی تفتیش یقینی بنائیں۔ اس حوالے سے خاص طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گردی کی فہرست میں شامل کئے گئے افراد کی تفتیش کریں اور ان کے خلاف مقدمے چلائے جائیں۔ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کو کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے مقدمہ بازی کے نتیجے میں موثر اور کارآمد پابندیاں لگائی جائیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ایسے اقدامات کر کے دکھانے ہیں کہ مالی پابندیاں موثر طور پر ایسے افراد پر لگیں جو اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 1267 اور 1373 کے تحت دہشت گرد قرار پائے ہیں، اسی طرح ایسے افراد جو انکے ماتحت ایسی کارروائیوں میں ملوث ہوں ان پر بھی سخت مالی پابندیاں لگائی جائیں۔ ایسے افراد کے اوپر پابندی ہو کہ نہ وہ فنڈز ا کٹھے کر سکیں، نہ ٹرانسفر کر سکیں اور نہ ہی وہ کوئی بینک سروس استعمال کر سکیں۔ اسی طرح ان کے تمام اثاثے بھی ضبط کیے جائیں۔اس کے علاوہ پاکستان کو یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ دہشت گردی کی معاونت کے حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں جیسے بینکس وغیرہ کو انتظامی اور دیوانی سزائیں ملیں اور اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی ادارے تعاون کریں۔پاکستان نے رواں سال ہی میں پارلیمنٹ سے پندرہ کے قریب نئے قوانین منظور کرائے ہیں تاکہ ملک کی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموار ہو سکے۔دنیا بھر میں صرف ایران اور شمالی کوریا ایسے ممالک ہیں جو بلیک لسٹ میں ہیں۔پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے اکتوبر 2019ء تک کا وقت دیا گیا تھا جس میں بعدازاں چار مہینے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ایف اے ٹی ایف کا قیام سنہ 1989ء میں عمل میں آیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ان ممالک پر نظر رکھنا اور ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہے، جو دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے اور عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیئے گئے اوردہشت گردوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں۔انسانی معاشرے میں جرائم نئی بات نہیں۔ جرائم دو مقاصد کے لئے کئے جاتے ہیں، اول:طاقت، اختیار، اقتدار کے حصول کے لئے۔ دوئم:زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی خاطر۔ظاہر ہے کہ بین الاقوامی اور خود تمام ممالک کے اپنے قوانین جرائم کی اجازت نہیں دیتے، چنانچہ جرائم چھپ کر کئے جاتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی دولت کو بھی ابتداً چھپا کر رکھا جاتا ہے اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس کو استعمال میں لانے کے لئے کسی نہ کسی طریقے سے اس کو صاف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسی کومنی لانڈرنگ کہا جاتا ہے، ایسے جرائم سکھانے والوں نے اس سے حاصل ہونے والی دولت کو چھپانے کا بندوبست بھی کردیا۔ ترقی پذیر ممالک سے اس طرح کی دولت ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں میں خفیہ کھاتوں میں جمع کرادی جاتی تھی، بعد ازاں ان بینک کھاتوں سے اس دولت کو مختلف ممالک اور کھاتوں میں منتقل کیا جاتا تھا۔ متعدد ہیر پھیر کے بعد دولت کو صاف اور محفوظ سمجھا جاتا ہے اور عام استعمال میں لایا جاتا ہے، ایسی دولت ٹیکس کے نظام سے باہر ہوتی ہے ۔ امریکہ نے سب سے پہلے 1986ء میں اینٹی منی لانڈرنگ کا قانون بنایا۔یہ عجب تماشا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردی کا منبع اور سب سے بڑا سرپرست بھارت ایف اے ٹی ایف کے اہم ارکان میں شامل ہے، جس کے بارے میں ایک امریکی جریدے کی حالیہ اشاعت میں مکمل تحقیق اور ٹھوس ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ ایک چشم کشا رپورٹ شامل کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کو عالمی نمبرون دہشت گرد ملک گردانا گیا ہے اور اقوام عالم کو اسکے دنیا کے مختلف ممالک میں ہونیوالی دہشت گردی کی گھنائونی وارداتوں میں عملی طور پر ملوث ہونے سے آگاہ کیا گیا اور یہ بھی ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بھارت دہشت گردی کیلئے کالعدم تحریک طالبان‘ القاعدہ‘ داعش اور دوسری عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ اور سرپرستی کررہا ہے۔ کیا بھارت کو محض اس لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کا رکن ہے جبکہ ایسی جانبداری سے اس ادارے کی اپنی ساکھ بھی دائو پر لگ سکتی ہے۔ اب تو منی لانڈرنگ کے پھیلائو میں بھی بھارت کا ملوث ہونا ثابت ہو چکا ہے جبکہ منی لانڈرنگ کی یہ رقوم دہشت گردوں کی فنڈنگ کیلئے ہی بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ ان ٹھوس ثبوتوں کے بعد تو بھارت کو بلیک لسٹ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے مگر وہ ایف اے ٹی ایف میں مقدس گائے کا درجہ حاصل کر چکا ہے جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصانات بھی اٹھائے ہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی لسٹ میں شامل دہشت گرد تنظیموں کی ممکنہ فنڈنگ روکنے کے بھی سخت اقدامات اٹھائے اور متعلقہ تنظیموں کے اکائونٹس منجمد اور اثاثے ضبط کئے مگر پاکستان کی نیت پر پھر بھی شبہ ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے تدارک کے مؤثر عملی اقدامات اور قربانیوں کے باوجود مسلسل گردن زدنی ٹھہرایا جارہا ہے تو اس سے بڑا امتیازی سلوک ہمارے ساتھ اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس بنیاد پر تو آئندہ فروری میں بھی پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔اس لئے ہمیں اپنی خودداری‘ خودمختاری اور سلامتی کے تقاضوں کو بہرصورت پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے لئے کسی رعایت کی ہرگز توقع نہیں رکھنی چاہیے اور ملکی سلامتی کے تقاضوں سے ہم آہنگ قومی خارجہ پالیسی پر کوئی مفاہمت نہیں کرنی چاہیے۔جب تک پاکستان اسلامی تشخص کی حامل نیو کلئیرریاست ہے اور چین سے سٹریٹجک تعلقات قائم ہیں، ایران اور عرب ممالک کے مابین خارجہ تعلقات میں توازن برقرارہے۔ امریکہ اور یورپ ہمیں معاف کرنے پر آمادہ ہیں ان کا چہیتا بھارت اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آئے گا۔ ایف اے ٹی ایف کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ وہ ایک آزاد خود مختار اور انصاف پسند ادارہ ہے، فریب نظر کے سوا کچھ نہیں۔ ایک زمانے میں اقوام متحدہ کو امریکی سٹیٹ خارجہ کا تابع مہمل ادارہ قرار دیا جاتا تھا، بعد ازاں فلسطین، کشمیر، دارفر اور مشرقی تیمور کے معاملات پر اس کا طفیلی کردار کھل کر سامنے آیا، یہی حالت ایف اے ٹی ایف کی ہے مگر ہم پھر بھی اپنی عالمی ذمہ داریاں نبھانے میں مگن ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ نسلی، مذہبی، علاقائی اور عالمی تعصب کی نذر نہ ہوں۔ ایف اے ٹی ایف امریکہ و بھارت کا گماشتہ ادارہ ثابت نہ ہو۔