پاکستان آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کیلئے مسلسل تیاریاں کر رہا ہے اسی لئے خبریں یہ ہیں کہ پاکستان کو اس مالی سال میں اپنے محصولات میں مزید350 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہے یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب مختلف اشیا میں جو ٹیکس کی چھوٹ ہے انہیں ختم کردیا جائے اور بہت سی اشیا ایسی ہیں جن میں سیلز ٹیکس نہیں ہے ان میں 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا جا جا رہا ہے کہ سیلز ٹیکس کا اطلاق عام استعمال کی چیزوں پر بھی ہو گا اسی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی کا ایک بڑاجھٹکا لگے گا ۔حکومت کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس کا نفاذ کھانے پینے کی عام اشیا پر نہیں ہو گا اسی پروگرام کے تحت بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا گو کہ ابھی تک یہ افواہیں ہی ہیں۔ لیکن عوام ابھی سے پریشان ہے کہ اگر مہنگائی مزید بڑھی تو جینا اور بھی مشکل ہو جائے گا ۔معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ تو ہوگا لیکن شاید بہت زیادہ نہ ہو ۔حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور ہیلتھ اور ایجوکیشن سیکٹر میں سیلز ٹیکس کی جو چھوٹ ہے اسے بر قرار رکھا جائے گا ۔ماہرین کے مطابق موبائل فون،کمپیوٹر کے نئے ماڈل،سونا،چاندی یہ سب مہنگے ہونگے۔پٹرول پر ڈیویلپمنٹ لیوی نامی ٹیکس مزید بڑھا کر 30 روپے کر دیا جائے گا۔اس کے نتیجے میںپٹرول مزید مہنگا کر کے حکومت عوام سے 356 ارب روپے اکٹھے کرے گی۔اس کے علاوہ اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ بھی ختم، 350 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگیں گے، 12 جنوری کو آئی ایم ایف کے آئندہ اجلاس سے پہلے پیش کیے جانے والے ترمیمی مالیاتی بل کی کچھ تفصیلات سامنے آ گئیں۔حکومت 12 جنوری سے پہلے ترمیمی مالیاتی بل قومی اسمبلی میں پیش کر ے گی، آسان الفاظ میں بات یہ ہے کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں منی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا ہے اور یہ سب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط پوری کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی قسط جاری کرنے کے لیے اپنی شرائط پر عمل درآمد کی یقین دہانی حاصل کی ہے۔ ان شرائط کے تحت 350ارب روپے کے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا ہوں گے، سادہ بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام سے 350 ارب روپے کے نئے ٹیکس وصول کیے جائیں گے۔ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 829 ارب روپے سے بڑھا کر 6 ہزار 100 ارب روپے مقرر کرنا ہو گا۔ پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 600ارب روپے وصول کرنے کا ہدف تھا، آئی ایم ایف نے اسے کم کرکے 356 ارب روپے کرنے کی اجازت دے دی ہے۔اس کے علاوہ ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی کمی کرنا ہوگی، بجلی کے بلوں میں اضافہ ہو گا لیکن آہستہ آہستہ۔منی بجٹ کے بعد مہنگائی کا ایک اور طوفان آئے گا جس میں متوسط طبقے کیلئے خود کو سنبھالنا مزید مشکل ہوجائے گا۔ گزشتہ ہفتے دواچھی خبریں سننے کو ملیں۔ ایک تو پٹرول کی قیمتیں کم ہو ئیں دوسرا اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں اضافہ کیا لیکن مارکیٹ کے خدشات سے یہ کم تھی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب شاید شرح سود بڑھانے کی ضرورت نہ پڑے جیسے ہی شرح سود میں اضافہ ہوا تو اسٹاک مارکیٹ پر اس کے اچھے اثرات پڑے اورمارکیٹ اوپر اٹھنا شروع ہو گئی لیکن اسٹاک مارکیٹ جہاں سال پہلے کھڑی تھی آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ سال پہلے ایک سال قبل اسٹاک مارکیٹ 4300 کی سطح پر تھی آج کل 44000 پر ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ دسمبر کے آخر تک مارکیٹ 50000 تک جائے گی لیکن اب ایسا نہیں لگ رہا-2 دسمبر کو اسٹاک مارکیٹ میں100 انڈیکس میں2134پوائنٹس کی کمی ہوئی جو اس سال کی سب سے بڑی گراوٹ تھی۔ اس میں سرمایہ کاروں کے332 ارب روپے ڈوب گئے۔ گزشتہ سال دسمبر کے اختتام تک شیئرز کی مالیت8ہزار35 ارب تھی جو اس وقت7609ارب ہے ایک سال میں شیئرز کی مجموعی مالیت میں426 ارب روپے کمی ہو گی ۔بیرونی انویسٹرز نے44کروڑڈالر کا سرمایہ نکال لیا ہے ،لسٹڈ کمپنیوں کی تعداد531 سے بڑھ کر533 ہو ئی ہے ایک سال میں مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی تعداد میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ جولائی سے ستمبر تک 100 انڈیکس میں شامل کمپنیوں نے مجموعی منافع751 ارب روپے کمایا جو پچھلے سال کے مقابلے میں59 فیصد زیادہ ہے کمرشل بینکوں نے نو ماہ میں195 ارب روپے کا منافع کمایا ۔تیل اور گیس دریافت کرنے والی کمپنیوں نے162 ارب، کھاد بنانے والی کمپنیوں نے74 ارب ، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے39 ارب روپے، سیمٹ بنانے والی کمپنیوں نے37 ارب اور بجلی گھروں نے33 ارب کا منافع کمایا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ترقی کی راہ میں سی سے بڑی جو رکاوٹ آرہی ہے وہ روپے کی قدر میں کمی ہے۔جس دن انویسٹرز کو یقین ہو گیا کہ اب ملک میں استحکام ہے تو ملک میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئے گی ۔ سیاست ایک حد تک تو معیشت پر اثر انداز ہو تی ہے لیکن اصل چیز ہے معاشی استحکام ہے،حکومت آنے سے قبل مختلف جماعتیں یہ دعوے کرتی ہیں کہ وہآئی ایم ایف سے مدد نہیں لیں گی مگر جب اقتدار میں آتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کے بغیر جی نہیں سکتیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ قوم کو بیوقوف بنانے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جوموجودہ وزیراعظم ہیں،126 دن کے دھرنے میں بڑے بڑے دعوے کرتے تھے۔ ان دعوئوں میں آئی ایم ایف سے مدد نہ لینے کا دعویٰ بھی شامل تھا۔ نوجوانوںکیلئے نوکریاں اور غریبوں کو گھروں کا دعویٰ تو درکنار‘ آئی ایم ایف کے بارے میں بار بار یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اس سے مدد نہیں لیں گے بلکہ اس کی غلامی سے آزاد ہونگے۔ موجودہ حکومت کاآئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا ، معاہدہ میں کوئی شرط پاکستان کے حق میں نہیں،مہنگائی سے سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا ہے وہ شہروں میں رہنے والا ہے جہاں اشیائے ضروریہ کے نرخ روز بڑھ رہے ہیں۔ مکان کے کرایوں میں گذشتہ ایک سال میں بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔ اشیائے خورو نوش پر اٹھنے والے اخراجات ہر خاندان کے دوگنا ہو چکے ہیں۔اسی طرح قوتِ خرید کم ہونے سے معیار زندگی پر فرق پڑا ہے۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اور بیرونی قرضوں کے دباؤ کی وجہ سے بجلی کے بل بھی دوگنا ہو چکے ہیں۔ڈالر کے اوپر بڑھنے کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ روپے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ کرنسی کی مضبوطی کے پیچھے سونے کے ذخائر ہوتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے پا س سب سے زیادہ سونے کے ذخائر ہیں۔ پاکستان کے پاس صرف چار ارب ڈالر کے سونے کے ریزرو ہیں جبکہ اس کی اکانومی کے حجم کے حساب سے اس کے پاس کم از کم 30 ارب ڈالر کے سونے کے ریزرو ہونے چاہییں۔ دوسرا یہ کہ سٹیٹ بنک کو ڈالر کو ڈی ریگولیٹ کرنا چاہیے تاکہ مارکیٹ اپنی ضروریات کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کر لے۔