میں اپنا آج کا کالم چوالیس سال پہلے داغ مفارقت دے جانے والے برصغیر پاک وہند کے ایک عظیم آرٹسٹ ایم اسماعیل کے نام موسوم کر رہا ہوں، میرا خیال ہے کہ ہماری آج کی نسل اور آج کی شو بز انڈسٹری کو ان جیسے آرٹسٹوں کے بارے میں معلومات ہونی چاہئیں، قصور نئی نسل کا ہے نہ شو بز میں آج کے ستاروں کا، بد قسمتی یہ ہے کہ پچھلے اکہتر برسوں کی ثقافتی تاریخ کو قلمبند کرنے کی بجائے اس کی نفی کی گئی۔ ٭٭٭٭٭ ہمارا آخری فلم پروڈکشن آفس عین لکشمی چوک ایکسپریس ڈرائی کلینز کے بائیں جانب والی عمارت کے دوسرے اور تیسرے فلورز میں آباد تھا ، دائیں ہاتھ مشہور زمانہ تقسیم کار کمپنی ایور ریڈی پکچرز کے دفاتر پوری آن بان شان کے ساتھ آباد تھے اس وقت لکشمی کے وسط میں فوارے والا گول چکر ہوا کرتا تھا، اس پورے علاقے میں فلمی دفاتر اور سینماؤں کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتا تھا ،ہاں ! دو تین فلمی جرائد کے دفاترضرور تھے اور کنگ سرکل سمیت تین چار ہوٹل بھی ، جو رات کو رندوں کی جنت بن جاتے ، دو ہوٹلوں میں رات کو کیبرے ڈانسز ہوتے تھے، جب میں نے ہوش سنبھالی اس وقت پانچ سال کا تھا، ان دنوں ہاشمی صاحب ’’چشم بد دور‘‘کے نام سے فلم پروڈیوس اور ڈائریکٹ کر رہے تھے، اس سے پہلے انہوں نے دو فلمیں الزام اور نگار لکشمی چوک کے اندر رضیہ مینشن اور شیخ بلڈنگ والے آفسز میں مکمل کی تھیں، فلم ’’نگار‘‘ رضیہ مینشن والے دفتر میں بنی تھی، یہی دفتر بعد ازاں عنایت حسین بھٹی صاحب کے پاس چلا گیا تھا جو شاید ابھی تک ان کے بڑے بیٹے ندیم عباس کے پاس ہے۔ ٭٭٭٭٭ ہمارے والے آفس میں بہت سارے لوگ ایک ساتھ لنچ کیا کرتے تھے کھانا عام طور پر گھر سے تیار ہو کر آتا تھا، لنچ ٹیبل پر نمایاں ترین ہستی ہوتی تھی بھاء جی ایم اسماعیل مرحوم کی ( جو چوالیس سال پہلے انتقال کرچکے ہیں)وہ سبھی کے لئے قابل احترام تھے، میرے والد تو ان کے سامنے نظر جھکا کر کھڑے ہوتے تھے ، ایم اسماعیل انہیں اوئے! نعیم کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنے عظیم آرٹسٹ ہیں ، وہ خاموش فلموں کے زمانے میں بھی سب سے بڑے ایکٹر تھے اور جب فلم نے بولنا شروع کیا اس وقت بھی موسٹ پاپولر ایکٹر تھے ، جب اسکرین کا پردہ اٹھتا تھا تو ہر فلم میں پہلا نام ایم اسماعیل کا ہی ہوا کرتا تھا۔ 1924 ء میں لاہور میں , پہلی بولتی فلم ہیر رانجھا، 1941 ء کی خزانچی ہو یا قیام پاکستان کے بعد کی ،قسمت، ان تک کوئی دوسرا ایکٹر نہ پہنچ سکا، انہوں نے،، قصہ ہیر رانجھا پر بننے والی تمام خاموش اور بولتی فلموں میں ،، کیدو،، کے کریکٹر کو دوام بخشا، فردوس اور اعجاز والی ہیر رانجھا کیونکہ گلیمر کے زمانے میں بنی ، اس لئے اس فلم کے کیدو اجمل خان زیادہ پاپولر ہوئے، مگر یہ بھی بڑا سچ ہے کہ اجمل خان خود بھی ایک بڑے کریکٹر ایکٹر تھے اور وہ بھی ایم اسماعیل کی فنی برتری کے معترف تھے، پارٹیشن کے بعد جتنی اردو پنجابی فلموں میں ہیرو یا ہیروئن کے باپ کا رول انہوں نے نبھایا اس کی نظیر پورے برصغیر میں نہیں ملتی، انہوں نے اپنی وفات تک کوئی کردار ایسا نہیں جس کو پرفارم نہ کیا ہو، وہ جس کردار میں بھی ہوتے اسی کردار میں ڈھل جایا کرتے تھے، وہ اپنے گھر سے لکشمی چوک تک آنے کے لئے سالم تانگہ لیا کرتے تھے، سالم کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ چار یا پانچ مسافروں کی سواری والے تانگے پر ایک ہی آدمی بیٹھے گا اور باقی چار سواریوں کا کرایہ بھی وہ خود ادا کرے گا، سالم تانگہ اس زمانے میں امارت کا سمبل ہوا کرتا تھا حالانکہ ایم اسماعیل مالدار شخص نہ تھے، ہاں وضعدار ضرور تھے۔ ان کا تانگہ لکشمی چوک کے پاپولر ہوٹل ، کنگ سرکل کے دروازے پر رکا کرتا تھا، مجھے ان سے بہت انس تھا میں انہیں مسلسل دیکھتا رہتا تھا، کنگ سرکل میں مقبول فلم ایکٹرز ، ڈائریکٹرز اور سیف الدین سیف جیسے لکھاری اور حسن طارق جیسے ڈائریکٹرز بھی باقاعدگی سے بیٹھا کرتے تھے، ،22نومبر1975 ء کو ایم اسماعیل کا انتقال ہوا ، میں بھی اباجی کے ساتھ ان کے جنازے میں شریک ہوا تھا، ہاشمی صاحب سڑک پر بچھی ہوئی دری پر بیٹھے کہہ رہے تھے ، موت سے کس کو رستگاری ہے،، آج وہ کل ہماری باری ہے، ( پانچ ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا ) ہاشمی صا حب نے ایم اسماعیل کی وفات پر ایک تعزیتی کالم لکھا جو روزنامہ مشرق میں شائع ہوا ، اس کالم میں انہوں نے ایم اسماعیل کو برصغیر کا لان چینی قرار دیا ، میں تیس سال سے زیادہ عرصے تک لان چینی کی تلاش میں رہا کہ وہ کون تھا ؟، بالآخر میری تلاش رنگ لائی اور مجھے پتہ چلا کہ لان چینی ہالی وڈ کا ایک ایسا بانی ایکٹر تھا، جس کے ذکر کے بغیر امریکی فلم کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکے گی، ابا جی کے انتقال کے سات ماہ بعد ایم اسماعیل صاحب کی پہلی برسی آئی تو میں نے لاہور کے سستے ترین پرنٹنگ پریس پتنگا سے دو روپے میں ہزار ہینڈ بل چھپوائے،ٹاؤن ہال کے چیف آف پبلک ریلیشن ڈیپارٹمنٹ خوشنود قریشی مرحوم کی مدد سے بلا معاوضہ ٹاؤن ہال بک کرایا، اور ایم اسماعیل کی برسی منانے کا اعلان کر دیا، مہمان خصوصی کے لئے اعتزاز احسن کے پاس اسمبلی میں ان کے آفس گیا وہ پیپلز پارٹی کی پنجاب حکومت کے وزیر اطلاعات تھے، اعتزاز صاحب نے معذرت کی کہ جس دن اور جس وقت ہماری تقریب ہے، وہی وقت بھٹو صاحب کے لاہور آنے کا تھا اور انہیں وزیراعظم بھٹو کو رسیو کرنا تھا، اسی دوران کسی نے بتایا کہ ایم اسماعیل فلم کے میدان میں آنے سے پہلے خطاطی اور مصوری کیا کرتے تھے اور احمد ندیم قاسمی کی پہلی تین کتابوں کے ٹائٹل انہوں نے ہی ڈیزائن کئے تھے، میں انارکلی بازار میں ماہنامہ فنون کے آفس پہنچا ، کمرے کے باہر خالد احمد اور قاسمی صاحب کے گروپ میں شامل اور کئی نوجوان ادیب، شاعر گفٹ پیکنگ میں مصروف تھے، سمجھ نہ سکا کہ کن لوگوں کو بھجوائے جائیں گے یہ تحائف، اس سوال کا جواب مجھے خود قاسمی صاحب سے مل گیا، انہوں نے ایم اسماعیل کی برسی کی تقریب کی صدارت سے معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ اس دن میرے اپنے اعزاز میں ایک تقریب ہو رہی ہے، میں نے ایم اسماعیل کی برسی کی تقریب کیلئے صدارت اور مہمان خصوصی والا صفحہ ہی پھاڑ دیا، تمام سینئر ایکٹروں کو اس تقریب میں بلا یا گیا، جن میں اجمل خان، اے شاہ شکار پوری ، شیخ اقبال اور مظہر شاہ بھی شامل تھے ، برسی کے دن تقریب شروع ہوئی تو ٹاؤن ہال کھچا کھچ بھر گیا۔میلے کا سماں تھا ، ان دنوں میں ایک نام بہت مشہور تھا۔عبداللہ ملک…وہ شہر کی ہر تقریب میں بن بلائے پہنچ جایا کرتے تھے، پھر یہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا کہ تقریب کو الٹانا ہے یا اسے کامیاب بنانا ہے۔ موصوف ہماری اس تقریب میں بھی پہنچ گئے، جب شیخ اقبال خطاب کرنے لگے تو سامعین کے درمیان بیٹھے ہوئے عبدللہ ملک اپنی نشست سے اٹھے اور بولنا شروع کر دیا، انہوں نے پاکستان میں آرٹسٹوں کی حالت زار اور ان کے استحصال کی ایسی تصویر کھینچی کہ ہال میں اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے کئی لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں، عبدللہ ملک کی گونجیلی آواز تھی اور ہال میں مکمل سناٹا…یہ ایک کامیاب تقریب تھی جس کی میڈیا نے بھی بہت اچھی کوریج کی، اختتام پر جب سب لوگ واپس چلے گئے، ٹاؤن ہال کے ملازمین جو مہمانوں کو پانی پلانے اور خوش آمدید کہتے رہے تھے، مجھ سے انعام و اکرام کے طلبگار ہوئے، میری جیب خالی تھی، اگر اس وقت دس روپے بھی ہوتے تو بہت تھے، مجھے وہاں سے غائب ہونا پڑا۔ ٭٭٭٭٭ ایم اسماعیل صاحب کی ایک فون کال میری یادوں کے سرمایہ میں ہمیشہ نمایاں رہے گی ہوا کچھ یوں کہ 1971ء میں ،میرا کراچی جانے کا پروگرام بن گیا، میں نے اس حوالے سے اباجی کو تفصیل سے بتایا تو وہ رضامند ہوگئے ، میرے کراچی پہنچنے کے چند ہفتوں کے بعد ہی پاک بھارت جنگ چھڑ گئی ، بھارت کا فوکس کراچی تھا، زیادہ بمباری وہیں ہو رہی تھی، عام طور پر کرفیو رہتا ، ایک دن میں اخبار خواتین کے آفس میں ولایت علی اصلاحی مرحوم کے پاس بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، اصلاحی صاحب نے رسیور اٹھایا اور پھر میری جانب کر دیا، تمہارا فون ہے دوسری جانب ایم اسماعیل صاحب تھے…وہ کہہ رہے تھے،کاکا تو واپس لاہور آجا، تیرا ابا بڑا اداس اے… میں نے کہا ، اچھا بھاء جی، اور اگلی صبح گھرواپسی کیلئے ٹرین پکڑ لی۔