پاکستان کے صف اول کے ماہرِ معیشت محترم ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے پچھلے دنوں ساتویں نیشنل فنانس کمیشن ایورڈ کے حوالے سے راقم سے گفتگو کے دوران ایک معرکتہ الآرا جملہ عطا کیا۔ ڈاکٹر اشفاق صاحب کا کہنا تھا کہ 2010ء میں جاری ہونے والا ’’ساتواں این ایف سی بنیادی طور پر معاشی سے زیادہ سیاسی پیکج تھا‘‘جس نے پاکستان کی معیشت میں ایک مستقل قسم کا عدم توازن پیدا کردیا ہے جسے دور کیے بنا نہ پاکستانی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانا ممکن ہے اور نہ حقیقت پسندانہ بجٹ سازی۔ ساتویں این ایف سی پر تنقید کرنے والوں میں ڈاکٹر اشفاق حسن خان تنہا نہیں ہیں۔ پاکستان کے کئی چوٹی کے معاشی ماہرین اور سیاستدان اس متنازعہ این ایف سی پر وقتاًفوقتاً نرم لہجے میں سوالات اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کا ازسر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، کیونکہ ان کے بقول اس ایوارڈ کو عجلت میں اور بنا غور وفکر کے اپنایا گیا ہے۔ لیکن پاکستان کے زہریلے سیاسی ماحول میں اس معاملے پر مربوط انداز میں قومی بحث نہیں ہو پارہی۔ لیکن اس جذباتی نکتہ نظر سے قطع نظر، انسان کے بنائے ہوئے ہر قانون اور معاہدے کی کمزوریوں کو دور کرنے اور اسے بہتر بنانے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ آج جب دسویں این ایف سی ایوارڈ کی تیاریاں ہو رہی ہیں تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ساتویں این ایف سی کی بنیاد پر اگر کوئی نیا معاشی سمجھوتہ ہو بھی جاتا ہے تو وہ پاکستان اور اس کی معیشت کے لیے ایک مستقل وجہِ کمزوری بنا رہے گا۔ اس لیے بدلے ہوئے حالات و تقاضوں اور ماضی کے این ایف سی کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تقسیمِ وسائل کے فارمولے پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ 2010ء کا این ایف سی ایوارڈ یقیناً اس لحاظ سے اہم رہا کہ ملک کی تمام اہم سیاسی قوتیں قومی وسائل کی تقسیم پر، غلط یا صیح، ایک وسیع اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب رہیں۔ ایوارڈ کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ اس میں آبادی کے ساتھ ساتھ ، غربت و پسماندگی اور صوبوں کے ریونیو جمع کرنے کی صلاحیت کو بھی تقسیمِ وسائل میں وزن دیا گیا۔ اس وجہ سے جہاں این ایف سی میں وفاق اور صوبہ پنجاب کا حصہ کم ہوا، وہیں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواکا حصہ خاطر خواہ بڑھا۔ ساتویں این ایف سی نے اپنے اطلاق کے پہلے سال میں قومی وسائل میں صوبوں کا حصہ 5۔47 فیصد سے بڑھا کر 56 فیصد کردیا، جو اگلے برس بڑھ کر 5-57 فیصد ہوگیا اور اسی سطح پر آج تک برقرار ہے۔ این ایف سی کے بعد آنے والی اٹھارہویں ترمیم نے اس بات کی ضمانت دی کہ اس ایوارڈ میں صوبوں کو دئیے جانے والے حصے کو بڑھایا تو جاسکتا ہے، لیکن کم نہیں کیا جاسکتا۔ ساتویں این ایف سی کی بدولت جہاں صوبوں کے وسائل میں یکدم اضافہ ہوا وہیں وفاق کے وسائل میں کمی ہوئی۔ ساتویں این ایف سی کے حمایتی وفاق کے وسائل میں کٹوتی کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تقریباً ڈیڑھ درجن وزارتیں صوبوں کے پاس چلی گئیں ہیں اور وفاق کے پاس بنیادی طور پر پانچ شعبے یا وزارتیں ،یعنی خزانہ، دفاع، بین الاقوامی تعلقات، مواصلات اور ریونیو ،ہی رہ گئے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ کیا وہ تمام وزارتیں صوبوں کے پاس جانی بھی چاہیں تھیں جو انہیں دی گئیں اور اس کی وجہ سے ریاست پاکستان کو کیا مشکلات درپیش ہیں؟ فی الوقت عملاً صورتحال یہ ہے کہ وسائل کا بڑا حصہ صوبوں کے پاس ہے اور تمام بڑے اخراجات وفاق کے سر ہیں جس میں قرضوں کی واپسی اور توانائی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات سرفہرست ہیں۔ ماضی میں ’’آئی ایم ایف‘‘ اور ’’یواین ڈی پی‘‘ کی رپورٹس میں بھی ساتویں این ایف سی کی ساختی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس کا ازسرنو جائزہ لینے کی تجاویز دی گئیں ہیں۔ معاشی ماہرین کے بقول ساتویں این ایف سی میں وسائل کی تقسیم کو اخراجات کی تقسیم کی ذمہ داری سے نہ جوڑنا اس کا ایک بڑا جھول ہے۔ ساتویں این ایف سی میں کجی یا ٹیڑھا پن پہلے دن سے یوں آگیا کہ صوبوں کو وسائل تو مالی سال 2010/11ء میں منتقل ہوگئے لیکن اٹھارہویں ترمیم ، جو این ایف سی کے بعد کی گئی، اس کے تحت وفاق سے صوبوں کو ذمہ داریاں منتقل کرنے کا عمل سست رہا۔ بقول ڈاکٹراشفاق صاحب کے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے اٹھارہویں ترمیم کی جاتی، اْس کے بعد این ایف سی ایوارڈ آتا۔ لیکن اس زمانے کی حکومت نے اس کا بالکل الٹ کیا جو ان پیچیدگیوں کا سبب بنا جو پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ صوبوں کے پاس یکدم وسائل تو آگئے لیکن انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت اور اہلیت دس برس گزر جانے کے باجود آج تک حاصل نہ ہوسکی۔ مثال کے طور پر سب سے زیادہ وسائل صوبوں کے پاس تعلیم اور صحت کی مد میں ہیں، لیکن یہاں بھی بہتری کے آثار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ساتویں این ایف سی کی ایک اور بنیادی کمزوری یہ ہے اس میں ہنگامی اخراجات مثال کے طور پر جنگ یا قدرتی آفات کی صورت میں مرکز تو صوبوں کی مدد کرنے کا پابند ہے ،لیکن ایسے ہی حالات میں اگر مرکز کو صوبوں کی مدد کی ضرورت پڑ جائے یعنی جوابی امداد کی، تو اس پر خاموشی ہے۔ بدلے ہوئے حالات میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر من و عن عمل اس لیے بھی درست نہ ہوگا کہ اس میں آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کو تقسیم وسائل میں نظرانداز کرتے ہوئے ان کی ذمہ داری وفاق پر ڈال دی گئی۔ دسویں این ایف سی میں صوبوں کو مختص 5-57 فیصد وسائل میں سے ان علاقوں کا حصہ نکلنا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح جو وفاق اور صوبوں کی مشترکہ ذمہ داریاں ہیں، ان میں بھی صوبوں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا تاکہ وفاق کے پاس مالی طور پر سانس لینے کی گنجائش رہے۔ مرکز کو مزید وسائل دینے کے لیے دسویں این ایف سی میں اس بات کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے کہ ریونیو جمع کرنے کی وفاق کی فیس، جسے ساتویں این ایف سی میں پانچ سے گھٹاکر ایک فیصد کردیا گیا تھا، اسے دوبارہ بڑھا دیا جائے۔ اور سب اہم یہ کہ فیصلہ ساز این ایف سی پر عمل درآمد کو صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ سے جوڑیں کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں وسائل اور اختیارات پر آمر کی طرح مسلط ہو گیئں ہیں اور اختیارات اور وسائل کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن اختیارات اور وسائل کی تقسیم کے کھیل میں جو چیز پیش نظر رہنی چاہییں وہ یہ کہ مرکز کو کمزور کرکے اور اس سے وسائل چھین کر مضبوط پاکستان نہیں بنایا جاسکتا۔