اُنتیس اپریل کو ہونے والا ،این اے 249کا ضمنی الیکشن کئی حوالوں سے اہمیت رکھتا ہے۔یہاں کل ووٹرز کی تعداد تین لاکھ اُنتالیس ہزار پانچ سو اکانوے تھی جبکہ جن ووٹرز نے ووٹ ڈلا،اُن کی تعداد تہتر ہزارچارسواکہتر تھی۔اس طرح لگ بھگ اکیس فیصد ووٹرز نے ووٹ ڈالا۔ووٹ نہ ڈالنے والوں نے ایسا کیوں کیا؟ا س کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔جیسا کہ سیاسی جماعتوں اور آزاد اُمیدواروں سے ووٹرز کا دِل اُوب جانا،ماضی کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے ووٹرز کی مایوسی میں اضافہ ہونا،موجودہ نمائندوں کا خود کو اہل ثابت کرنے کے بہتر دعوے نہ کرسکنا،ووٹرز کا یہ احساس (ماضی کے تجربات کی روشنی میں)کہ کوئی بھی ایم این اے بن جائے ،حلقے کے مسائل جوں کے توں رہیں گے،حلقے کے مسائل اس قدر گمبھیر صورت اختیار کرچکے کہ ایم پی اے ایم این اے کی حیثیت سے باہر کا معاملہ ہوچکا۔گرمی کی شدت،ماہِ رمضان،کورونا وباکا خوف،یہ فیکٹرز بھی ووٹرز کے لیے گھرسے نکلنے میں رکاوٹ ہوسکتے ہیں۔مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کی مرکزی لیڈر شپ کا حلقہ میں انتخابی مہم کا حصہ نہ بننا۔ووٹرز کی بڑی تعداد ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتی ہے ،اُن کی جانب سے فیکٹریوں میں کام کرنے کو ترجیح دینا،اگرچہ مقامی سطح پر چھٹی تھی ،مگر بعض فیکٹریاں تو عید پربھی مزدوروں کو چھٹی نہیں دیتیں اور کام جاری رہتا ہے۔ووٹرز کو مہنگائی ،بے روزگاری کا احساس ہونا۔بعض سیاسی پارٹیوں کا کئی حصوں میں تقسیم ہونا،جیسا کہ ایم کیوایم او رکالعدم تحریکِ لبیک وغیرہ،ووٹرز کا کسی ایک گروہ کی طرف نہ جھکنے کا روّیہ،ووٹ دینے سے گھر میں رہنے کو ترجیح دینا۔ اب مختلف پارٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔دوہزاراَٹھارہ کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف نے کراچی سے مجموعی طورپر این اے کی چودہ سیٹیں اپنے نام کی تھیں۔اِن اڑھائی برس کے عرصہ میں پی ٹی آئی کے ایم این اے ایز اور وفاقی حکومت کی کارکردگی ،ان کے ووٹ بینک میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔دوہزاراَٹھارہ میں یہاں سے سیٹ جیتی گئی ،جبکہ مذکورہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار پانچویں پوزیشن پر آئے۔پی ٹی آئی کی حالیہ بدترین کارکردگی کا بھرپوراثر دوہزار تئیس کے انتخابات پر پڑے گا۔مجھے محسوس پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کو یہاں سے دوہزاراَٹھارہ میں حاصل کی گئی پوزیشن سے کلی طورپر ہاتھ دھونا پڑے گا۔پاکستان مسلم لیگ ن کا یہاں ووٹ بینک نوے کی دہائی سے چلا آرہا ہے۔نوے کی دہائی میں تین عام انتخابات ہوئے ، دومیں پاکستان مسلم لیگ ن کے اعجاز شفیع نے فتح سمیٹی۔یوں نوے کی دہائی ،اس حلقے میں پی ایم ایل این کی دہائی رہی۔دوہزار اَٹھارہ میںپی ایم ایل این نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا،جبکہ مذکورہ معرکے میں پی ایم ایل این کی کارکردگی بُری نہیں رہی ،مگر یہ اس سے زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ووٹ بینک میں اضافہ کرسکتی تھی۔پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک اس حلقے میں موجود رہا ہے۔پیپلزپارٹی نے دوہزار آٹھ اور قبل ازیں اُنیس سواَٹھاسی میں یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی،موجودہ کامیابی نے حیران کیا ہے۔اس کامیابی کا سہرا صرف اور صرف قادرمندوخیل کو جاتا ہے ،میرا خیال ہے کہ اِن کو یہ ووٹ ذاتی حیثیت میں پڑا ہے۔یہاں کی جو ورکنگ کلاس ہے ،وہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دے سکتی ہے ۔پیپلزپارٹی کو بہترین موقع ملا ہے ،جس کا فائدہ اُٹھا کر آنے والے انتخابات میں اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ایم کیوایم کا یہاں ووٹ بینک رہا ہے۔ماضی میں یہاں سے ایم کیوایم جیت چکی ہے۔مگر یہ ووٹرز اس وقت تقسیم تھاکہ ایم کیو ایم کے تین دھڑے بن چکے ہیں۔مستقبل میں یہ حلقہ ایم کیوایم کو دوبارہ شاید حاصل نہ ہوپائے۔پاک سرزمین پارٹی کے مصطفی کمال نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔حالانکہ وہ خود یہ اظہار کرچکے تھے کہ وہ محض اس لیے الیکشن لڑرہے ہیں کہ اپنی اور پارٹی کی موجودگی کا احساس دلاسکیں اور دوہزار تئیس کے انتخابات میں یہ حلقہ کے عوام کے لیے یکسر نئے اُمیدوار نہ ہوں۔اس لحاظ سے مصطفی کمال نے بہتر پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ہے۔کالعدم تحریک لبیک کے لیے یہ ضمنی الیکشن کئی لحاظ سے معنی خیز تھا۔اس الیکشن میں تحریک لبیک کو یہ ثابت کرنا تھا کہ وہ سیاسی جماعت ہے،کوئی مسلکی گروہ نہیں۔حالیہ عرصہ کی ڈویلپمنٹ کے تناظر میں تحریک لبیک کو اپنا امیج بہتر بنانا تھا۔واضح رہے کہ دوہزاراَٹھارہ کے عام انتخابات میں کراچی سے تحریک لبیک نے این اے 240,46,47تین حلقوں میںدوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔جبکہ مذکورہ حلقے میں یہ تیسرے نمبر پر رہی تھی ،یہاں سے اس جماعت نے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی جیتی تھی۔حالیہ ضمنی الیکشن میں یہ جماعت بھی منقسم نظر آئی ۔اس حلقے میں بریلوی ووٹ بینک کثیر تعداد میں موجود ہے ،ٹی ایل پی ،اس پر مزید محنت کرکے ووٹو ں میں اضافہ کرسکتی تھی۔اگر آنے والے وقت میں ٹی ایل پی پر سیاسی پابندی نہیں لگتی تو یہ جماعت خود کو سیاسی جماعت ثابت کرنے میں کئی نوع کے مسائل کا شکار رہے گی کہ اس کے پاس سیاسی قیادت کا بحران ہے۔قیادت کے بحران کی بدولت یہ مسلکی ووٹ بینک تو حاصل کرسکتی ہے ،لیکن عام ووٹرز کو متوجہ نہیں کرسکتی۔ اُنتیس اپریل کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں میرا خیال تھا کہ پیپلزپارٹی تیسری یا چوتھی پوزیشن حاصل کر پائے گی۔لیکن مجھ سے تجزیہ کرنے میں چُوک ہوئی ۔ووٹرز کا اپنا مزاج ہوتا ہے ،وہ آخری لمحے بھی فیصلہ کرسکتا ہے۔ووٹرز کوبلیک میل کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں ،اُس کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے متعدد انداز بھی ہوسکتے ہیں ،لیکن ووٹ کاسٹ کرتے وقت ،وہ بالکل آزاد ہوتا ہے۔اُس کی مرضی ،انتخابات پر باندھے گئے تمام تجزیوں کو تبدیل کرسکتی ہے۔اب جب ضمنی الیکشن کا مرحلہ پایہ تکمیل کو پہنچ چکا،سیاسی جماعتوں اور ورکرز کو آگے کی طرف بڑھنا ہوگا،مگر ہماری سیاسی جماعتیں اپنی توانائیاں ضائع کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔اپنے حق کی جنگ لڑنی چاہیے ،مگر اس کے کئی بہترین طریقے بھی ہوسکتے ہیں۔سیاسی جماعتیں اپنے عمل سے ووٹرز کو متنفرکرنے کا بعض مرتبہ باعث بن جاتی ہیں،ہارنے والی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اُن ووٹرز کا شکریہ اداکریں ،جنھوں نے پولنگ اسٹیشنوں کا رُخ کرکے سیاسی عمل کو رواں رکھنے میں کردار اداکیا۔