ہمارے حکمرانوں کا یہ سمجھنا کہ پاکستانی عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے۔ ۔ ۔ بجا طور پر جائز ہے۔اب یہی کہ ہمارے پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ فرمانا کہ اُن کی جماعت کا نہ تو مشرف حکومت سے کوئی این آر او National Reconciliation Ordinance ہوا۔۔۔اور نہ ہی این آر او سے پیپلز پارٹی کو کوئی فائدہ پہنچا۔یہ ایک ایسا بیانیہ ہے کہ جس کے لئے میں ڈکشنری میں کوئی نرم لفظ تلاش کرنا چاہتا تھا۔۔ ۔مگر بہت کوشش کے باوجود بازاری لفظ ’’جھوٹ‘‘ کے علاوہ کوئی متبادل نہیں مل سکا۔اسی سے ملتا جلتا لفظ ’بے وقوف ‘‘بنانا بھی ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غریب مسکین عوام نہ صرف تمام سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بار بار بہ راضی خوشی بنتے رہے ہیں۔ بلکہ آئندہ بھی اگر بنیں تو حیرت نہیں ہونی چاہئیے۔بد قسمتی سے نیا پاکستان بنانے کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف بھی اب اس سے مستثنیٰ نہیں رہی کہ جس کے قائد کا وزیر اعظم بننے کے لئے عوام 22سال انتظار کرتے رہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی اسکرین پر یہ منظر دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وطن عزیز کے تین فوجی ڈکٹیٹروں کے وارث تحریک انصاف کی کابینہ میں شامل پریس بریفنگ میں عوام کو یقین دلا رہے تھے کہ اُن کی حکومت ’’پانی،بجلی،مہنگائی‘‘کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ان تین وزراء کرام میں سے ایک صدر جنرل ایوب خان کے پوتے پانی،بجلی کے وزیر محترم عمر ایوب خان تھے،دوسرے یحییٰ خان کے دست راست جنرل عمر کے صاحبزادے اسد عمر اور تیسرے جنرل پرویز مشرف کے ترجمان ہمارے اطلاعات کے وزیر فواد چوہدری۔ ۔ ۔ اور پھر ان تین ہی پر کیا منحصر ہے ۔ ۔ اس وقت ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی 56رکنی کابینہ میںکم از کم 26وزراء کرام ماضی کی تمام سویلین ،ملٹری حکومتوں کی لوٹ مار میں اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالتے رہے ہیں۔معذرت کے ساتھ تحریک انصاف کی قیادت نے سیاسی اخلاقیات کی آخری حد یہ پھلانگی کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں لاہور سے عمران خان صاحب کی چھوڑی ہوئی نشست ہمایوں اختر کو دی گئی جو نواز لیگ ،ق لیگ اور مشرف لیگ کے دور میں بڑے دھڑلے سے وزارتوں کے ثمرات سے مستفید ہوتے رہے۔یہ لیجئے بات محترم سابق صدر آصف علی زرداری سے شروع ہوئی تھی ۔۔۔ملبہ میں نے اپنے خان صاحب کی حکومت پر ہی گرانا شروع کردیا کہ جسے آئے ابھی ساٹھ دن ہی توہوئے ہیں۔مگر محض ساٹھ دن میں جو صاف و شفاف جماعت ’’ن،ق،ف‘‘لیگ سے لبالب بھرنے کے بعد چھلکنے لگے ۔۔۔اُس سے بس خیر کی خواہش ہی رکھی جاسکتی ہے۔اسے محض اتفاق ہی کہنا چاہئے کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی اور مشرف حکومت کے درمیان این آر او کی کھچڑی پکنی شروع ہوئی تو میں لندن میں ہی تھا۔ایجویئر روڈ کے ایک ریستوران میں میرے صحافتی استاد سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پریس سکریٹری بشیر ریاض اور سینئر صحافی محترم ضیاء الدین جو انگریزی اخبار ڈان کے بیورو تھے کچھ دیر بعدوہ بھی شامل گفتگو ہوچکے تھے۔دسمبر 2007کے الیکشن کا اعلان ہوچکا تھا۔پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لئے سارے ملک سے جیالے لندن میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ بڑا سوال یہ تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی طویل جلا وطنی ختم کرنے کے بعد الیکشن سے پہلے واپس لوٹیں گی یانہیں۔ ۔ ۔ ؟یہ سوال اس لئے بھی زیادہ اہم تھا کہ اُن برسوں میں طالبان کے خودکش حملوں سے سارا ملک دہلا ہوا تھا۔ایسے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سلامتی کی ضمانت پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ تھی۔جنرل پرویز مشرف تواتر سے یہ بیان دے رہے تھے کہ وہ کسی صورت دونوں مین اسٹریم جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹوکو نہ صرف پاکستان واپس آنے کی اجازت نہیں دیں گے بلکہ وہ الیکشن میں بھی حصہ نہیں لے سکیں گے۔مگر 9/11کے بعد جنر ل مشرف ایک کمزور پوزیشن میں کھڑے تھے۔امریکی قیادت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ جب تک ملک کی سب سے بڑی جماعت یعنی پیپلز پارٹی war on terror میں اُن کے ساتھ نہیں کھڑی ہوگی وہ عوامی سطح پر یہ جنگ نہیں جیت سکیں گے۔امریکی اعلیٰ حکام اس حوالے سے پی پی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر جنرل پرویز مشرف کو قریب لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوچکے تھے۔مگر آخری راؤنڈ یعنی جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان براہ راست ملاقات جیسا’’ بریک تھرُو‘‘نہیں ہوپارہا تھا۔لندن کے جس ریستوران میںہم بیٹھے تھے ۔ ۔ ۔ اُس سے ایک فرلانگ بھر کے فاصلے پر ہمارے سابق وزیر رحمان ملک کے فلیٹ پر پی پی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس جاری تھا۔موبائل فون پر لمحے لمحے کی خبریں آرہی تھیں۔اور پھر وہ ’’بریکنگ ‘‘خبر آ گئی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں بتایا گیا کہ پارٹی کی میٹنگ چھوڑ کر وہ دوبئی روانہ ہوگئی ہیں اور جہاں ان کی ملاقات صدر جنرل پرویز مشرف سے ہونے جارہی ہے۔دوبئی میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات میں کن نکات پر معاہدہ ہوا۔۔۔یہ ہمیشہ متنازعہ ہی رہے گا۔ہاں،یہ ضرور ہے کہ ا س میں ضمانتی ہمارے دوست ملک یو اے ای کے حکمراں تھے اور اس میں واشنگٹن نے بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔اگلے دن لندن واپسی کے بعد ہی پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ باقاعدہ اعلان جاری کردیا گیا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو2007کے الیکشن سے پہلے پاکستان واپس آئیں گی۔مشرف حکومت اور پی پی کی قیادت کے درمیان جو معاہدہ ہوا اُس میں سرِ فہرست مطالبہ محترم آصف علی زرداری پر قائم مقدمات کا خاتمہ تھا۔اور پھر سابق صدر پرویز مشرف نے 5اکتوبر 2007کو قومی مفاہمتی آرڈی نینس جاری کیا جو سات دفعات پر مشتمل تھا۔اور اس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ملک میں مفاہمت کی پالیسی کو فروغ دینے،سیاسی انتقام کی روایت کو ختم کرنے کے لئے اُن آٹھ ہزار مقدمات کو ختم کردیا جائے جو1990کے بعد16سال کے دوران سیاستدانوں پر قائم کئے گئے تھے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی 18اکتوبر کو ہوئی ۔لاکھوں کا ہجوم رینگتا ہوا جب کارساز موڑ پرپہنچا تو ایک نہیں ،دو خوفناک خو د کش حملوں سے اُن کا استقبا ل ہوا جس سے وہ بال بال محفوظ رہیں۔ رات گئے اُن کی امریکی سفیر سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے شکوہ کیا کہ مشرف نے اُن سے بے وفائی کی ہے۔اور اس خود کش حملے کے ذمہ دار مشرف کے قریبی ساتھی ہیں۔ مشرف حکومت نے اس کا ذمہ دار طالبا ن قیادت کو ٹھہرایااور پی پی کی قائد کو پیغام بھیجا کہ وہ الیکشن تک انتخابی ریلیوں سے گریز کریں۔مگر پی پی کی قائد ڈٹ گئیں کہ وہ اب مشرف حکومت پر مزید اعتبار نہیں کریں گی۔اور پھر 27دسمبر کووہ سانحہ ہوا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا نقشہ ہی بدل دیا۔محترمہ کی شہادت کے اگلے 12گھنٹے کے اندر محترم آصف علی زرداری وطن واپس آگئے۔ابھی محترمہ کی قبر کی مٹی سوکھی بھی نہ تھی کہ وہ معجزہ ہوگیا جس کا کوئی تصور بھی نہیںکرسکتا تھا۔گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کے آبائی گھر میں محترمہ کی شہادت کے چوتھے د ن جب میں بھی دیگر سوگواران کے ساتھ فاتحہ پڑھ رہا تھا تو سارا ماحول اس بات کی گواہی دے رہا تھاکہ ہم مستقبل کے صدر ِمملکت سے شرفِ نیاز حاصل کررہے ہیں۔جی ہاں، یہ مشرف ، بینظیر بھٹو این آر او ہی تھا جس کے سبب سینکڑوں مقدمات کے ہوتے ہوئے آصف علی زرداری ہی صدر ِ مملکت بنے بلکہ پی پی ،ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کو بھی سنگین مقدمات سے بریّت ملی۔کالم آخری دموں پر ہے ۔۔۔معذرت کے ساتھ پیپلز پارٹی نے اکتوبر 2007میں یہ کوئی پہلا این آر او نہیں کیا تھا۔۔۔دسمبر 1988میں بھی انہیں اقتدار صدر غلام اسحاق خان سے ’’مفاہمت ‘‘ کے بعد ہی ملا تھا۔