پچھلے دنوں زرداری صاحب نے انکشاف کیا کہ خان صاحب کا دھرنے والوں سے این آر او ہوا ہے۔ یہی بات ان کے بعد پیپلز پارٹی کے بعض دوسرے لیڈروں نے بھی کی۔ این آر او میں ایک فریق رعایت یا معافی دیتا ہے‘ دوسرا فریق لیتا ہے۔ زرداری صاحب کے بیان سے پتہ نہیں چلتا تھا کہ این آر او دیا کس نے اور لیا کس نے۔ انہوں نے بات این آر او ہونے کی کی۔ یوں ایک الجھن کھڑی ہو گئی۔ لیکن یہ الجھن خود خاں صاحب نے دور فرما دی۔ اپنی جماعت اور کابینہ کے اجلاس میں خطاب فرماتے ہوئے انہوں نے ارشاد فرمایا کہ دھرنے ختم نہ ہوتے تو ہماری حکومت ختم ہو جاتی۔ لیجئے جناب‘ سوال کا جواب مل گیا۔ این آر او خاں صاحب نے لیا‘ دھرنے والوں نے دیا۔ یعنی خاں صاحب نے دھرنے والوں سے این آر اولے کر حکومت بچا لی‘ دھرنے والوں نے این آر او دے کر حکومت کو جان کی امان دے دی۔ ٭٭٭٭٭ ایک الجھن پھر بھی ذہنوں میں ہے۔ دھرنوں سے حکومت کیسے ختم ہو جاتی؟ دھرنے بذات خود حکومت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے‘ بھلے سے چار مہینے ہی کیوں نہ دھرنوں میں گزر جائیں۔تحقیق بالصواب یہ بتاتی ہے کہ دھرنوں کے پیچھے کوئی طلسماتی انگلی ہوا کرتی ہے جو حکومتیں گراتی ہے۔ خاں صاحب نے چار ماہی دھرنے میں یہی کہا تھا ناکہ ہمارے دھرنے کے نتیجے میں یہ طلسماتی انگلی بس اٹھنے ہی والی ہے اور ادھر انگلی اٹھی‘ ادھر حکومت گری۔ اور پھر یہ خاں صاحب ہی کا بیان ہے نا (بالفاظ دیگر) کہ انگلی ہمارے ساتھ ہے‘ ہمارے پیچھے کھڑی ہے‘ ایک ہی پیج پر ہے؟ پھر حکومت کیسے ختم ہوئی؟ ایسی کوئی شہادت کسی رئویت والے نے ابھی تک نہیں دی کہ انگلی کا رخ عنایت بدل گیا ہے؟ البتہ ایسی شہادتیں بے شمار ہیں کہ انگلی خاں صاحب کے مخالفوں کے پیچھے اب بھی پڑی ہوئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ خیر‘انگلی کے طلسمات اپنی جگہ ‘لیکن سچی بات ہے کہ این آر او دو طرفہ ہوا۔ یعنی جواب میں خاں صاحب نے بھی اس ہاتھ دے‘ اس ہاتھ لے والا معاملہ کیا۔ دھرنوں کے بعد ہزار کے لگ بھگ اصحاب دھرنا پکڑے گئے تھے اور خاں صاحب کا یہ اعلان بھی آیا کہ قانون توڑنے والوں سے کوئی رعایت نہیں ہو گی۔ باغیانہ تقریریں کرنے والوں کو قطعی نہیں چھوڑا جائے گا۔ دھرنے والوں نے الٹی میٹم دیا کہ جتنے پکڑے ہیں‘چھوڑے جائیں‘ مزید کارروائی کا ارادہ واپس لیا جائے ورنہ پھر سڑکوں پر آ جائیں گے یعنی این آر او واپس لے لیں گے۔چنانچہ مانتے ہی بنی‘ جو پکڑے گئے تھے‘ سبھی چھوٹ گئے۔ مزید کارروائی‘ قانون کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے اور کچھ بھی رو رعایت نہ دینے کے اعلانات تہہ کر کے رکھ دیے گئے۔ یوں جوابی این آر او ہو گیا۔ لیکن پھر مسئلہ آیا کہ کچھ لوگ پوچھنے لگے وہ اعلانات کیا ہوئے؟ اس کا حل بھی خاں صاحب کے اصحاب روشن دماغ نے ڈھونڈ نکالا۔اعلان ہوا کہ نئی تحقیق کے مطابق پتہ چلا کہ قانون شکنی کرنے والے مسلم لیگ ن کے کارکن تھے۔ جو داڑھی پگڑی لگا کے لبیک والوں میں گھس آئے تھے چنانچہ اب انہی کی پکڑ دھکڑ ہوگی۔ مسئلہ پھر بھی جزوی حل ہوا ہے۔ باغیانہ تقریروں کی الجھن اب بھی باقی ہے۔ لیکن خیر‘ اس کا حل کسی اور مزید نئی تحقیق سے نکل سکتا ہے۔ یہ کہ یہ کوئی اور نہیں ‘ رانا ثناء اللہ تھے اور ان کے ساتھ عابد شیر علی تھے جو سفید بال اور چٹی داڑھی لگا کے یہ باغیانہ تقریریں کر رہے تھے۔ادھر یہ نئی تحقیق ہوئی ادھر سارا مسئلہ صاف۔ قانون کی رٹ بحال‘ این آر او سلامت۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ روز دن بھر اعلان ہوتا رہا کہ خاں صاحب کرپشن کے بارے میں کوئی معرکتہ الآرا خطاب فرمائیں گے لیکن دن ڈھلے پتہ چلا کہ خطاب ملتوی ہو گیا۔ کچھ نے کہا کہ ’’اوپر والوں‘‘ نے منظوری نہیں دی اب سنسر کے بعد نشر ہو گا۔ یعنی عوام کے لیے ’’تفنن طبع‘ کا ایک موقع نکل گیا۔ کرپشن کا راگ سدا بہار ہے۔ پچھلے سو دنوں میں کچھ اور ہوا یا نہیں‘ یہ راگ بجنے میں اضافہ ضرور ہو گیا۔ لیکن ایک بات قدر دانوں کو کھل رہی ہے‘ یہ کہ راگ میں سب سے اونچا سُر غائب ہے۔ وہی جو ’’نواز شریف نے قوم کے تین ہزار کروڑ روپے چوری کئے‘‘ والے بول الاپتا تھا۔یہی نہیں‘ کچھ سُر اور بھی غائب ہیں‘ دو سو ارب ڈالر سے بھرا صندوق واپس لانے والا‘ آٹھ ہزار ارب سالانہ کی منی لانڈرنگ اور کتنے ہزار ارب کی ہر روز کی کرپشن والا سر۔ گویا پہلے راگ تفصیلی تھا‘ اب اجمالی ہے۔ سروں میں ترمیم ہو گئی‘ راگ بدستور ہے۔ ایک صاحب انصاف سے پوچھا۔ یہ راگ کب تک بجتا رہے گا۔ فرمایا‘ اگلے الیکشن تک۔ ٭٭٭٭٭ تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید صاحبہ نے ایوان میں اسرائیل کے حق میں سوز دروں سے بھرا ہوا خطاب فرمایا۔ کئی رقیق القلب حضرات پر تو رقت طاری ہو گئی۔ خطاب میں کچھ تفسیری تحقیقی نکات بھی پیش کئے گئے۔ پتہ نہیں چلا اصحاب علم نے کتنی داد دی۔ فرمایا‘ یہ جو درود شریف میں ہم جو آل ابراہیم ؑپر درود بھیجتے ہیں تو یہ آل اسحاقؑ ہے جو یہودی ہیں۔اس طرح ہم یہودیوں پر درود بھیجتے ہیں اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔ یوں ہم سب ایک ہیں۔ مزید تحقیق یہ فرمائی کہ تحویل قبلہ اس بات کا اعلان تھا کہ آج سے خانہ کعبہ تمہارا قبلہ‘ مسجد اقصیٰ یہودیوں کا قبلہ ہے۔ موصوفہ نے یہودیوں کو ’’ڈی گریڈ‘‘ (بے توقیر) کرنے پر بھی اظہار رنج و غم فرمایا۔ یہ تو محض دو تین نکات تھے۔ ٭٭٭٭٭ یکے از چہار وزرائے اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے اطلاع دی ہے کہ ہم نے شبانہ روز محنت سے ملک کو درست سمت میں گامزن کر دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ شب و روز پیہم تبادلوں سے‘ تبادلے واپس لئے جانے سے‘ تبادلہ پھر سے کئے جانے سے‘ ایک ایک افسر کا پندرہ روز میں پانچ بار تبادلہ کرنے سے ملک کی سمت درست ہو جاتی ہے۔ مزید معلوم ہوا کہ سمت درست کرنے میں کچھ کمی رہ جائے تو غریبوں کے جھگے جھونپڑے گرانے‘ ٹھیلے ریہڑے الٹانے سے وہ بھی پوری ہو جاتی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ غریب عوام عمرانی حکومت کے لیے شبانہ روز’’دعائیں‘‘ کر رہے ہیں۔