گذشتہ دِنوں ایک ٹی وی ٹاک شومیں اینکر نے بلاول بھٹو زرداری کا ویڈیو کلپ دکھایا جس میں وہ کسی ایشوپر پی ٹی آئی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے،اینکر نے اسد عمر سے بلاول بھٹو زرداری کے خدشات پرمبنی سوال کیا تو موصوف نے شانِ بے نیازی سے اینکر کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’آپ کسی سنجیدہ آدمی کے بیان کا حوالہ دیں‘‘یعنی اسد عمر کے نزدیک بلاول بھٹو زرداری سنجیدہ سیاست دان نہیں ہے اور اُن کی کوئی بات اہمیت کی حامل نہیں ہے۔اسد عمر کا روّیہ بعینہ اپنے لیڈر جیسا ہے جو اپنے سوا کسی کو کامیاب اور اہم آدمی تصور نہیں کرتا۔عمران خان کا اندازِ سیاست محسوس اور غیر محسوس طریقے سے اِن کی پارٹی کے دیگر لوگوں کااندازِ سیاست بنتا جارہا ہے ،جس میں لچک نہیں ،اختلافِ رائے کی گنجائش نہیں اور اِن کے علاوہ کوئی دوسرا اہم نہیں۔اسدعمر کے سیاسی سفر کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ایک دہائی سے زیادہ پر محیط نہیں۔اگر ہم یہ کہیں کہ سفر کی طوالت معنی نہیں رکھتی اصل چیز کامیابی ہوتی ہے،تو اس معیار پر بھی اسد عمر پورے نہیں اُترتے۔ مجھے اِن کی گفتگو سننے کا بارہا موقع ملا،مَیں نے ایک طویل انٹرویو بھی اِن کا کِیا،یہ معیشت کے میدان کے خود کو آدمی کہتے تھے اور ملکی معیشت کو درست ڈگر پر لانے کا نسخہ ٔکیمیا بھی رکھتے تھے۔مگر جب یہ وفاقی وزیرِ خزانہ بنادیے گئے تو اگلے چند ماہ میں اِن کی ہمت جواب دے گئی ۔جس دِن یہ وفاقی وزیرِ خزانہ نہیں رہے ،اُسی دِن رات کو اپنے پسند کے اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے اِن کی خوشی دیدنی تھی،یہ اینکر سے مخاطب ہوئے کہ آج عہدہ چھوڑنے کے بعد خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرر ہا ہوں اور کندھے جس بوجھ سے جھکے ہوئے تھے ،وہ اپنی جگہ پر واپس آگئے ہیں۔اس سبکی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ یہ اپنے پُرانے میدان کی طرف پلٹ جاتے۔جہاں اِن کے بقول یہ جھنڈے گاڑ کر آئے تھے ،مگر یہ حکومت کا حصہ رہے۔ موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے تو یہ اس عرصہ میں پیداہونے والے کسی بھی بحران سے خو ش اسلوبی سے عہدہ برا ہوتے دکھائی نہیں دیے اور ابھی تک اِن کی حکومت تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا کوئی جامع پروگرام ترتیب دینے سے قاصر رہی ہے۔یہ حکومت کس شعبے میں عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوئی ہے ؟یہ سوال اگر غلطی سے کسی وزیر یا مشیر سے پوچھ لیا جائے تو وہ غصہ کرتے ہیں ،مگر کوئی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔وزیرِ اعظم کے پاس ہر سوال کے جواب میں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ’’این آر او نہیں دوں گا‘‘حکومت کے پہلے اڑَھائی سال اس بیان کے سائے میں گزرگئے ہیں ،لیکن آنے والا وقت حکومت کے لیے بہت کڑا ثابت ہو سکتا ہے۔اب تک کی صورتِ حال کا جائزہ بتا تا ہے کہ وزیرِ اعظم ’’این آراونہیں دوں گا‘‘کے نعرے کو آنے والے وقت میں بھی عزیز رکھیں گے لیکن یہ وقت تقاضا کررہا ہے کہ حکمرن پُرانے نعروں کو چھوڑ کر عملی طورپر عوام کا سوچیں، عوام، حکمرانوں کی باہمی لڑائیوں سے اب اُوبھ چکے ہیں۔ حکمران یہ سوچیں کہ اقتدار میں آکر نظام میں کیا تبدیلی لائے اور عوام کے طرزِ زندگی کو کتنا باسہولت بنایا؟اس سوال پر لمحہ موجود میں غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔لیکن شاید نظام اور عوام کے طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلی ان کے منشور کا حصہ نہیں ،یا شاید ان کے بس کی بات نہیں۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت سمجھتی ہے کہ عوام نے اِن کو اس لیے منتخب کیا کہ وہ ماضی کے حکمرانوں یعنی ن لیگ اور پی پی پی کے رہنمائوں کی جانب سے کی گئی مبینہ کرپشن کا اُن سے کڑا حساب لیں گے۔دوسری طرف جو لوگ پی ٹی آئی کے خیرخواہ ہیں ،جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے ،وہ اب بھی اپنے لیڈر سے یہی تقاضاکررہے ہیں کہ کرپشن اور لوٹ مارکرنے والوں کا کڑا احتساب ہوناچاہیے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت اپنے چاہنے والوں کی خواہش پر مبنی طرزِحکومت اختیار کیے ہوئی ہے۔جیسا اِن کے ووٹرزچاہتے ہیں،ویسا یہ کررہے ہیں ،مگر یہ خواہش رکھنے والے عوام اور اِن کے حکمران ،ایک بڑی غلطی کررہے ہیں جو کرپشن کو ہی اصل مسئلہ سمجھ رہے ہیں،معاملہ کرپشن کا نہیں ،انہدام کا ہے۔انہدام محض حکمرانوں کی کرپشن سے وقوع پذیر نہیں ہوتا ،اس کا معاملہ نااہلی سے جڑا ہوتا ہے۔نااہلی کا ہتھیار چوہے کے دانتوں کی طرح کام کرتا ہے ،یہ نظام اور اُس سے جڑی ہر چیز کو کتر کر رکھ دیتا ہے۔مجھے کبھی یہ خیال آتا ہے کہ جو کچھ حکومت کررہی ہے ،وہ تو عین اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کی سوچوں کے مطابق کررہی ہے ،پھر اس کو موردِ الزام کیوں ٹھہرایا جائے؟لیکن حکومت ایک غلطی کررہی ہے ،یہ ووٹرز اور سپورٹرز کو ہی بائیس کروڑ عوام سمجھ بیٹھی ہے۔آپ ووٹرز اور سپورٹرز کی خواہشوں کا بھی ضرور خیال رکھیں ،مگر مت بھولیں ہر خواہش معاشی خوشحالی کے وجود سے پھوٹتی ہے۔