وہ رات اینیمل فارم کے مکینوں کے لئے اداسی بھری اورتکلیف دہ تھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا لیڈر کامریڈ نیپولین اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قریبی فارم ہائوس کے بدنام زمانہ ظالم مالکان کے ساتھ مشروبات پینے اور خوش گپیوں میں مصروف ہے۔ مکینوں کے لئے اپنے لیڈر اور دیگر فارم ہائوسز کے ظالم، سنگدل مالکان میں فرق کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ وہ سب ایک دوسرے سے مشابہہ لگ رہے تھے۔ یہ ہے وہ سبق جو اینیمل فارم (Animal Farm)جیسے شاہکارناول کے ذریعے ہمیں ملتا ہے۔یہ برطانوی ناول نگار، نقاد اور لکھاری جارج اوریل کا بہت مشہور علامتی ناول (یا ناولٹ) ہے۔ پچھلی پون صدی سے انگریزی ادب کا یہ شاہکارقارئین کی دلچسپی کا حامل رہا ہے۔ اس کی علامتی حیثیت غیر معمولی ہے۔دنیا کی متعدد زبانوں میں یہ ترجمہ ہوچکا۔ اردو میں بھی اس کے دو تین الگ الگ تراجم ہوئے ہیں۔ یہ ناول پہلی بار 1945میں شائع ہوا۔اس وقت سے اس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوئے۔ ٹائم میگزین نے اسے انگریزی زبان کے سو بہترین ناولوں میں شامل کیا ہے۔ اینیمل فارم کو پڑھنا ایک اچھوتا تجربہ ہے۔ جارج اورویل کمال کے لکھاری ہیں۔ ان کا ایک اور ناول 1984 بڑا مشہور ہوا ہے۔ اس ناول میں بگ برادر کا کردار تخلیق کیا گیا جو خاموشی سے جاسوسی کے نیٹ ورک اور جدیدآلات کے ذریعے ہر شہری کی نگرانی کرتا ہے۔ اس شہر میں یہ فقرہ ہر جگہ گونجتا ہے ،’’بگ برادر دیکھ رہا ہے۔‘‘ اسی کردار کو سامنے رکھ کر مشہور ریلائٹی شو بگ باس تخلیق ہوا۔ پہلے انگلینڈ پھر امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں یہ شو چلایا گیا۔ شروع میں نام بگ برادر رکھا گیا، پھر اسے بگ باس میں بدل دیا گیا۔ بھارت میں بھی پچھلے آٹھ دس برسوں سے یہ شو دکھایا جاتا ہے۔ 1984 بھی اب اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اینیمل فارم البتہ جارج اورویل کا زیادہ بڑا اور ممتاز ناول ہے۔ اس کی علامتیں بھی زیادہ گہری ،معنی خیز اور ہمہ گیر ہیں۔ اینیمل فارم سوویت یونین کے سوشلسٹ معاشرے پر طنز تھا، مصنف نے اس وقت کے روسی مرد آہن جوزف سٹالن کو خاص ہدف بنایا۔ آج بھی اتنا ہی تروتازہ اور دلچسپ ہے۔ دراصل اس میں تبدیلی کا جھوٹاخواب دکھانے والوں پرگہرا طنز ہے۔ ایسے لوگ جو تبدیلی کا سہانا سپنا دکھا تے ہوئے کوئی انقلاب یا تبدیلی لے آئیں مگر اپنے دکھائے خواب کو عملی تعبیر دینے کے بجائے وہ خود استحصالی طبقے کا حصہ بن جائیں ۔ جنہوں نے ان کے کہنے پر جدوجہد کی، وہ بدستور پر یشانیاں سہتے رہیں۔ اینیمل فارم کی کہانی انگلستان کے ایک قصبہ ویلنگٹن کے ایک فارم سے شروع ہوتی ہے جس کا نام مینور (Manor)فارم ہے ۔ فارم کا مالک بڈھا جون ایک سست،آرام طلب شخص ہے۔ اس فارم پر مختلف کاموں کے لئے جانوررکھے گئے ہیں، پگزیعنی سور، گھوڑے، گائیں ، بھیڑیں ، مرغیاں، بطخیں، کبوتر، گدھا وغیرہ ۔۔ حالات کچھ زیادہ اچھے نہیں۔ بڈھے جون کی سستی اور اس کے ملازمین کی غیر ذمہ داری کے باعث فارم ہائوس کے جانوروں کو بروقت اچھی خوراک نہیں ملتی، سخت سردی کا نشانہ بنتے جبکہ معمولی سی غفلت پر انہیں بری طرح پیٹا جاتا ہے۔ ایک دن فارم ہائوس کا سب سے پرانا، بوڑھا پگ ’’اولڈ میجر ‘‘ سب جانوروں، پرندوں کو اکٹھا کر ایک انقلابی تقریر کرتا اور ان سے اپنا ایک خواب شیئر کرتا ہے۔ وہ انہیں اکساتا ہے کہ انسان ظالم اور بے رحم ہیں، جانوروں سے برا سلوک کرتے ہیں۔ اس لئے اس فارم ہائوس کے تمام اینیملز (جانوروں،پرندوں)کو بغاوت کر کے انسانوں کو ماربھگانا چاہیے اورخود قبضہ کر کے اپنی حکومت بنا لینی چاہیے۔ اولڈ میجر تو کچھ دنوں بعد مرجاتا ہے، مگر فارم ہائوس کے جانوروں میں بغاوت کی چنگاری سلگا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد فارم ہائوس کے مالک بڈھے جون اور اس کے ملازموں کی نالائقی اور سخت دلی کے باعث اچانک بغاوت ہوجاتی ہے،جانور اکٹھے ہو کر سب انسانوں کو ماربھگاتے ہیں اور گیٹ بند کر کے فارم ہائوس پر اپنا کنٹرول قائم کر لیتے ہیں۔ فارم ہائوس کا نام مینور فارم کے بجائے اینیمل فارم رکھ دیا جاتا ہے ۔ پگز میں سے بعض لکھنا پڑھنا جانتے ہیں، وہ نیا نام باہر گیٹ پر پینٹ کر دیتے ہیں۔ نیپولین اور ’’سنو بال‘‘ نامی دو پگز دوسروں سے زیادہ سمجھدار ، پڑھ لکھنے والے اور طاقتور ہوتے ہیں۔ فارم ہائوس کا سب سے طاقتور گھوڑا باکسر، گھوڑی کلووور ، بڈھا مگر قنوطی گدھا بنجمن، بکرا میورل ، عقل وفہم سے عاری بھیڑیں ، مرغیاں، بطخیں کبوتر وغیرہ کے ساتھ باقی تمام پگز بھی ان دونوں کی حاکمیت تسلیم کر لیتے ہیں، اگرچہ سنوبال اور نیپولین دونوں کی سوچ ایک دوسرے سے متضاد ہوتی ہے، وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ اس دوران فارم ہائوس سے بے دخل کیا گیا مالک بڈھا جونز اپنے کچھ ساتھی اکٹھے کر فارم ہائوس پر حملہ کرتا ہے۔ جانور سخت مزاحمت کے بعد انہیں زخمی کر کے بھگا دیتے ہیں۔ یہ جنگ فارم ہائوس کا سب سے دانشمند پگ(Pig)سنوبال بڑی ہوشیاری سے لڑتاہے ،گولی لگنے سے وہ بھی زخمی ہوتا ہے، مگر فتح اینیملز کے حصے میں آتی ہے۔ سنوبال کو بہادری پر ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ نیپولین بڑا شاطر پگ ہے،فارم ہائوس کی کتیا نو بچے دیتی ہے، نیپولین ان بچوں کو اٹھا کر فارم ہائوس کی چھت پر لے جاتا ہے اور خفیہ طور پر ان کی پرورش کرتا اور انہیں اپنا وفادار بنا دیتا ہے۔ اس دوران سنو بال کو فارم ہائوس میں ونڈمل بنانے کا آئیڈیا آتا ہے تاکہ بجلی پیدا ہوسکے اور فارم ہائوس کے مکینوں کی زندگی آسان ہو۔ وہ ایک انقلابی تقریر کر کے ہر ایک کو اس آئیڈیے کا حامی بنا تا ہے کہ بجلی پیدا ہونے کی صورت میں سردیوں میں گرم پانی اور حرارت میسر آئے گی، کام آسان ہوجائے گا اور ہر ایک کو ہفتے میں صرف تین دن کام کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے کہ فارم ہائوس کے تمام جانوراسے ووٹ دیں، نیپولین اپنے نو کتوں کے ساتھ حملہ کر کے سنوبال کو بھاگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ناول میں مشہور کمیونسٹ لیڈر ٹراٹسکی کو سنوبال سے تشبیہہ دی گئی جسے مبینہ طور پر سٹالن نے جلاوطنی میں مروا دیا تھا۔ اب نیپولین فارم ہائوس کا نیا لیڈر ہے اور اس کے بعد فارم ہاوئس کے مکینوں کی زندگی پہلے سے زیادہ دشوار اور کٹھن ہوجاتی ہے۔نیپولین کے پالتو خوفناک کتوں کے ڈر سے کوئی انکار یا بغاوت کی ہمت نہیں کرتا۔ ہر خامی پرانے حکمرانوں یعنی بڈھے جون پر ڈالی جاتی ہے۔ نیپولین کے حامی پگز ہوشیاری سے اس کی وکالت کرتے اور مخالفوں کی جانب سے سازشیں کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں ۔ناول میں کئی اہم موڑ ہیں، ایک کالم میں اس کا خلاصہ دینا مشکل ہے۔ سب سے دلچسپ یہ کہ انقلاب لانے کے بعد چند اصول وضع کئے جاتے ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہے’’ تمام جانور برابر ہیں۔‘‘ بعد میں جب نیپولین اپنے لئے فارم ہائوس کی آسائشیں مختص کر لیتا ہے تو چپکے سے اس اصول میں تبدیلی کر لی جاتی ہے، اب یہ بن جاتا ہے،’’تمام جانور برابر ہیں، مگر کچھ دوسروں سے زیادہ برابر ہیں۔ ‘‘ یہ وہ فقرہ ہے جو بلا مبالغہ ہزاروں تحریروں ، تقریروں میں استعمال ہوا ہے۔ سیاسی طنز کا یہ بے مثال نمونہ ہے۔ابتدائی اصولوں میں یہ بھی ہے کہ دو پائوں والے یعنی انسان برے(bad) جبکہ چار پائوں والے اچھے (good)ہیں۔بعد میں یہ اصول بھی بدل دیاجاتا ہے کہ چار پائوں والے اچھے مگر دو پائوں والے ایک ڈگری زیادہ اچھے یعنی بہتر(Better)ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پگز بھی انسانوں کی طرح دو پیروں پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ میز پر کھانا کھانا ، بستر میں سونا اور ہر وہ چیز جو پہلے ممنوع قرار دی گئی تھی، اسے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھروہ شام آتی ہے جس کا کالم کی ابتدائی سطروں میں ذکر کیا، جب نیپولین آس پاس کے فارم مالکان یعنی انسانوں کو دعوت پر بلاتا ہے۔ کھانے کی میز پر پگزظلم کی علامت انسانوں کے ساتھ بیٹھے گپیں لگا رہے، مشروب پی رہے ہیں۔ فارم ہائوس کے مکیں بے بسی سے یہ تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ جارج اورویل کا ناول اینیمل فارم ہر جھوٹے پیامبر اورجعلی کرشمہ ساز پر طنز ہے۔ اسے پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس طرح پہلے بلند وبانگ دعوے کئے جاتے ہیں، بڑے بڑے خواب دکھا کر پھر بتدریج اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے اور پہلے جیسوں کی طرح بے حسی اور سنگدلی برتی جاتی ہے۔ اینیمل فارم یہ بتاتا ہے کہ ایسی تبدیلی کانعرہ لگانے والے خود تو بلند مقام حاصل کر لیتے ہیں، ان کے خوشامدی اور چاپلوس ساتھی بھی کچھ نہ کچھ ثمرات حاصل کر لیتے ہیں جبکہ اصول پسند ساتھی ازخود کارنر یا پھر نکال باہر کئے جاتے ہیں۔ عوام پھر پہلے سے بھی زیادہ مشکل حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔ نوٹ: اس کالم کو موجودہ سیاسی حالات پر منطبق کرنے والے اپنے رسک پر ایسا کریں۔ کالم نگار نے یہ کالم صرف یہ بتانے کے لئے لکھا کہ مایوس صرف ہمارے ہاں کے لوگوں کے مقدرمیں نہیں آتی بلکہ ایسا تاریخ میں بہت بار ہوچکا ۔اس لئے زیادہ پریشان نہ ہوں، خواب ایسے ہی ہوتے ہیں، ٹوٹتے ہیں تو ان کی کرچیاں دل میں پیوست ہی ہوتی ہیں، دیر تک پھر وہ نکالی نہیں جا سکتیں۔