’’بھٹو صاحب کے میرے پاس آنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ جب صدر ایوب خان سے ان کی ان بن ہوئی تو ان کو خیال ہوا کہ ان پر ممکن ہے مقدمات بنائے جائیں اور اس وقت ان کو ایسے وکیل کی ضرورت ہو گی جس کو صدر ایوب کی حکومت متاثر نہ کر سکے۔ انہوں نے مجھے دو تین ٹیلی فون بھی کئے لیکن اس کے بعد وہ ولایت چلے گئے اور ملاقات نہ ہوئی۔ ولایت سے واپسی پر وہ لاہور میں مجھے ملے لیکن کوئی سیاسی اشتراک ہمارا نہ ہو سکا۔‘‘ ’’1969ء میں پاکستان کے اندر صدر ایوب خان کے خلاف تحریک اتنی وسعت اختیار کر گئی کہ صدر نے ایک رائونڈ ٹیبل کانفرنس بلائی۔ نوابزادہ نصراللہ خان اس میں اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ اس میں پیپلز پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو بلایا نہیں گیا تھا اور بھٹو صاحب یہ سمجھتے تھے کہ یہ ان کے ساتھ ناانصافی ہے چونکہ نوابزادہ صاحب حزب اختلاف کے قائد تھے اور بھٹو کو پتہ تھا کہ میرے نوابزادہ صاحب سے بہت تعلقات ہیں اس لئے بھٹو میرے پاس آئے اور اصرار کیا کہ ان کو رائونڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لئے نوابزادہ نصراللہ صاحب سے دعوت دلوائوں۔ نوابزادہ صاحب کو دعوت دینے میں بہت تامل تھا اور وہ کہتے تھے کہ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بھٹو صاحب کانفرنس میں کیا رویہ اختیار کریں۔ آخر نوابزادہ صاحب کو میں نے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ بھٹو صاحب کی اس میٹنگ میں شرکت کا وہ انتظام کر دیں۔ چنانچہ صدر ایوب سے مشورہ کے بعد بھٹو صاحب کو دعوت دے دی گئی جس کو صدر ایوب اور بھٹو صاحب کے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے بھٹو صاحب بہت اہمیت دیتے تھے۔ بھٹو کو دعوت مل گئی لیکن آخری وقت بھٹو صاحب اور بھاشانی نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا۔’’رائونڈ ٹیبل کانفرنس بہت اہم وقت پر ہو رہی تھی اور میں اس کانفرنس کے دوران اکثر راولپنڈی میں موجود رہتا تھا۔ گو میں کانفرنس کارکن نہیں تھا۔ ہماری جماعت کے صدر خان ولی خان اور مشرقی پاکستان کے صدر پروفیسر مظفر اس کانفرنس میں شریک تھے۔ ’’اس کانفرنس کے سلسلے میں جس طرح شیخ مجیب الرحمن ڈھاکہ جیل سے کانفرنس ٹیبل پر آئے۔ وہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔شیخ صاحب کے ساتھ بیرسٹر ڈاکٹر کمال حسین اور نذر الاسلام بیرسٹر بھی قانونی مشیر کے طور پر آئے تھے۔ میری ان سے دوستی تھی اور کانفرنس کے دنوں میں یہ اکثر میرے کمرے میں انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں جمع ہو جاتے تھے۔ یہاں مجھے احساس ہوا کہ مشرقی پاکستان کی نئی نسل مغربی پاکستان کے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔لیکن میں نے یہ سمجھا کہ اگر ان کے ساتھ صحیح طریقے سے بات چیت ہو سکی تو پرانی نسل ان کو مائل کر کے پاکستانی بنا سکے گی۔ راولپنڈی کے قیام کے دوران مجھے معتبر ذرائع سے پتہ چلا کہ فوج ملک کا انتظام سنبھالنے کی تیاری کر رہی ہے اور شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان کے درمیان پرائیویٹ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔‘‘ ’’مجھے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے تھوڑے دنوں بعد پنجاب کے گورنر ایئر مارشل نور خان نے پرائیویٹ ملاقات کے لئے بلایا۔ گفتگو کے دوران ان کا سارا طرز خطاب یہ تھا کہ مغربی پاکستان ترقی کے ٹیک آف سٹیج پر پہنچ چکا ہے لیکن مشرقی پاکستان بہت پیچھے *اس لئے اس کا مغربی پاکستان کے ساتھ بندھا رہنا دونوں کے لئے مضر ہے۔ ہو سکتا کہ پنڈی کی رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے دوران کسی بڑے فوجی جرنیل نے بھی شیخ مجیب الرحمن سے اسی انداز میں گفتگو کی ہو۔‘‘ ’’اگرچہ کانفرنس کے بہت سے مطالبات مان لئے گئے مگر بحیثیت مجموعی کانفرنس کامیاب نہ ہو سکی۔بجائے اس کے کہ کانفرنس میں معاملات طے ہوتے فوج نے ملک کا انتظام سنبھال لیا۔ صدر ایوب کی ایک چٹھی جو انہوں نے 24مارچ 1969ء کو جنرل یحییٰ خان کے نام لکھی تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ اس چٹھی میں آئین کی دفعات اور مشرقی پاکستان کے اس حق کے برخلاف کہ صدر اگر کسی وجہ سے کام نہ کر سکے تو سپیکر نیشنل اسمبلی جو اس وقت عبدالجبار خان تھے‘ کو صدارت کے فرائض انجام دینے چاہئیں اقتدار فوج کو سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ عام خیال ہے یہ ہے کہ جنرل ایوب خان کو اس انتظام میں اپنی عافیت نظر آئی اور آئینی انتظامات اپنی ذات کے لئے خطرات سے پرنظر آئے۔ جس طرح مارشل لاء حکومت نے صدر ایوب خان کو محفوظ رکھا۔غالباً وہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ جرنیلوں میں اس قسم کی کوئی بات چیت ہو چکی تھی۔‘‘ ’’1970ء میں میری ملاقات بھٹو صاحب سے لاہور انٹرکانٹی نینٹل میں ہوئی‘ وہاں انہوں نے مجھے اپنی آنے والی حکومت میں وزیر قانون بنانے کی پیشکش کی۔ میں نے انکار کیا اور یہ بھی کہا کہ میں تو الیکشن نہیں لڑ رہا۔ اسی مقدمے میں‘ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مجھے وزیر قانون کس طرح بنائیں گے اور ان کی تعداد اسمبلی میں کیا ہو گی‘ تو انہوں نے کہا کہ سندھ سے ان کے 20ممبر آئیں گے۔ پنجاب سے 15‘فرنٹیئر سے پانچ اور بلوچستان سے ایک اور غالباً مشرقی پاکستان سے ایک یا دو۔ اس ملاقات میں انہوں نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ انہوں نے میاں ممتاز محمد خان دولتانہ سے راہ و رسم بڑھا لی ہے اور مسلم لیگ کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی میں اتنی سکت ہو گی کہ وہ مرکز میں وزارت بنانے کی کوشش کر سکے۔‘‘ ’’بعدازاں میں اپنے لڑکے خورشید کے ساتھ بھٹو کے مقدمے کے سلسلے میں کراچی گیا اور وہ مجھے میٹرو پول ہوٹل میں ملنے آئے۔ انہوں نے مجھے کھانے کی دعوت دی پہلے تو انکار کرتا رہا کیونکہ ایک معاملے پر میرا اور ان کا جھگڑا ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے کہا کہ میں شاید ناراضگی کی وجہ سے انکار کر رہا ہوں اور آئندہ وہ کوئی ایسی وجہ پیدا ہی نہیں ہونے دیں گے تو میں نے کھانے کی یہ دعوت قبول کر لی۔ ہم کھانے پہ گئے بھٹو صاحب نے پانچ چھ آدمی بھی بلائے ہوئے تھے۔‘‘ ’’کھانے کے بعد جب ہم واپس آنے لگے تو بھٹو صاحب نے کہا کہ انہوں نے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں‘ اس لئے رک جائوں۔ میں نے تامل کیا تو انہوں نے خورشید سے‘ جس کے ساتھ ان کی دوستی تھی کہا کہ وہ باوا کو روکیں چنانچہ ہم دونوں کو لے کر اپنے پرائیویٹ کمرے میں چلے گئے‘ وہیں کافی آ گئی۔ میں اور بھٹو ایک صوفے پر بیٹھے تھے۔ دفعتاً میں نے دیکھا کہ بھٹو فرش پر بیٹھ گئے اور شدید جذباتی اور رقت آمیز انداز میں میری منت سماجت کرنے لگے‘ میں ان کو بار بار اپنے ساتھ صوفے پر بٹھانے کی کوشش کرتا لیکن وہ انکار کرتے رہے اور کہا کہ اس وقت تک وہ نیچے سے نہیں اٹھیں گے جب تک آپ مان نہ جائیں۔ بالآخر میں نے ان سے سوچنے کی مہلت مانگی اور ساتھ ہی کہا کہ خان ولی خان سے میری دوستی ہے اور نیشنل عوامی پارٹی میں پروفیسر مظفر اور دیگر کمیونسٹ دوستوں سے اختلاف رائے رہتا ہے لیکن میں خان عبدالولی خان کو اطلاع دیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکوں گا۔‘‘