لاہور،اسلام آباد(نامہ نگارخصوصی،خبر نگار) عدالت عظمیٰ نے مرد پولیس تفتیشی افسر کے ذریعے لڑکی کا بیان لینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ خواتین کے معاملات میں خاتون پولیس افسران کو شامل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔جمعرات کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے افغان لڑکی کے مبینہ اغوا کے ملزم طیب کی درخواست ضمانت کی درخواست ضمانت کی سماعت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کہا کہ بیان خاتون پولیس افسر نے کیوں ریکارڈ نہیں کیا؟ کیاخواتین کیساتھ ایسا ہوتا ہے ؟بیان ریکارڈ کرنے کیلئے لیڈی پولیس کیوں نہیں؟ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد ! ہم آپ پر برہم نہیں،ہم ریاست کے لڑکی کیساتھ سلوک پر برہم ہیں۔ یہ لڑکی ہماری بیٹی کی طرح ہے ،مستقبل میں ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ وکیل صفائی نے کہا کہ لڑکی نے ملزم کیساتھ شادی کی تاہم لڑکی کے والدین نے اغوا کا پرچہ کرادیا۔ ملزم کی وکیل نے کہا کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی ٹرائل جلد مکمل کرنے کی یقین دہانی پر درخواست ضمانت واپس لے لیتی ہے ۔جس پر عدالت نے درخواست خارج کردی۔دریں اثناسپریم کورٹ نے زمین تنازع کے مقدمے میں آبزرویشن دی کہ جھوٹی مقدمہ بازی پر5 لاکھ جرمانہ ہونا چاہئے ۔جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حسن ابدال میں5 کنال زمین پر جھوٹے دعویدار کی درخواست مسترد کرکے قرار دیا کہ ہماری بدقسمتی ہے چور ،بے ایمان ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ رجسٹری لاہو ر میںسماعت کرتے ہوئے جسٹس منظور احمد ملک کی سربراہی میں قائم بینچ نے 42 سال پرانا جائیداد تنازع کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ فاضل بینچ نے عبدالعزیز کی درخواست پر سماعت کی ۔ جائیداد کی بٹورے کے تنازع پر پاک پتن کے رہائشیوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم بینچ نے سکول ٹیچر کو دوبارہ بھرتی کرنے کیخلاف ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی اپیل کی سماعت کے دوران قرار دیا کہ الخیر یونیورسٹی ڈگریاں فروخت کرتی ہے ہم اس کو نہیں مانتے ،اگرایچ ای سی 5 سالہ بچے کو دی گئی پی ایچ ڈی کی ڈگری کو تسلیم کر لے تو کیا ہم مان لینگے ؟ دلائل کے بعدعدالت نے درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ایک ہی نوعیت کے تمام کیسز یکجا کرنے کا حکم د یا اورفریقین کو آئندہ سماعت پر مزید دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔