دلیپ کمار کے بارے میں بہت لکھا گیا ہے مگر پھر بھی ایسا کیوں لگتا ہے کہ اس کے بارے میں ابھی وہ نہیں لکھا گیا جو لکھا جانا چاہیے۔ کیا ہم دلیپ کمار کی کہانی وہاں سے شروع کریں جہاں اس نے جنم لیا تھا؟ پشاور کا تاریخی شہر اور اس شہر کا تاریخی علاقہ ’’قصہ خوانی بازار‘‘۔ ایک پختون گھر میں پیدا ہونے والے لڑکے کو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کاروبار کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ وہ نوجوان جس کا نام یوسف خان تھا۔ جس نے اکثر غریب پختونوں کے مانند اپنا کاروبار ایک انگریز کینٹین سے شروع کیا۔ مگر وہ وہاں سے اس لیے نکالا گیا کیوں کہ اس کے دل میں وطن کی آزادی کی تڑپ تھی۔ روس کے مشہور ناول ’’ڈاکٹر زواگو‘‘ پر ایک نقاد نے کتنا خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ناول کے ہیرو زواگو اور ناول کی ہیروئن لارا کے کردار تاریخ میں پیدا ہونا تھے۔ اس لیے روس میں انقلاب آنا ضروری تھا۔ کچھ اس طرح ایک بیروزگار پٹھان نوجوان اتفاق سے ممبئی ٹاکیز کی مالکہ اور اداکارہ دیویکا رانی سے ملا اور اس ذہین عورت نے اس غیر معمولی نوجوان کے چہرے اور شخصیت میں وہ بات سب سے پہلے دیکھی جواس سے قبل کسی کو نظر نہیں آئی تھی۔ یوسف خان کو اداکاری سے کوئی دلچسبی نہیں تھی مگر اداکاری کو اس میں دلچسپی ضرور ہوئی۔ کیوں کہ یوسف سے قبل ہندوستانی فلموں میں جتنے بھی ہیروز آئے ان میں کوئی یوسف خان جیسا نہیں تھا۔ یوسف خان میں آخر وہ کیا تھا؟ جس کے باعث وہ یوسف خان سے دلیپ کمار بن گئے۔ وہ نوجوان جو ڈھیلی ڈھالی پینٹ پہنے اور دونوں ہا تھ پینٹ کے جیب میں ڈالے جب فلم سٹوڈیو میں داخل ہوا تو وہ سب سے مختلف محسوس ہونے لگا۔ یوسف خان کو دلیپ کمار بنانے میں بنیادی کردار اس کے چہرے پر ایک ایسی اداسی تھی جو کسی اور کے چہرے پر نہیں تھی۔ وہ اداسی بہت فطری تھی۔ وہ اداسی اداکاری والی نہیں تھی۔ وہ اداسی حقیقی تھی۔ وہ اداسی جس میں غم کم اور گھمبیرتا زیادہ تھی۔ ہر چہرے میں کوئی نہ کوئی خاص بات ہوا کرتی ہے۔ کچھ چہرے ایسے ہوتے ہے جن پر اداسی اچھی نہیں لگتی۔ کچھ چہرے ہنستے،مسکراتے اور قہقہے لگاتے اچھے لگتے ہیں۔ ایسے چہرے اگر اداس ہوں تو ان کا حسن کم ہوجاتا ہے۔دلیپ کمار کے چہرے پر جو فطری اداسی تھی اس میں ایل الگ ہی کشش تھی۔ اس لیے وہ اداسی فلمی کیمرے پر پورے برصغیر میں چھا گئی۔ اس طرح ہندوستانی فلموں کو ایک ہیرو مل گیا۔ وہ ہیرو جس کے گرد اداسی کا حلقہ تھا۔ اس وقت بالی ووڈ میں اداکاری اور تخلیقی گہرائی برائے نام بھی نہیں ہے۔ اس وقت ہندوستانی فلموں میں جسموں کی نمائش ہے۔ اس وقت بالی ووڈ بھڑکتی ہوئی بجلیوں کا نام ہے۔ مگر ان بجلیوں میں ایسی کوئی بات نہیں جو دل میں اتر جائے۔ وہ بجلیاںجنسی جذبات میں تغیانی پیدا کرتی ہیں مگر وہ دل کے تاروں کو اس طرح نہیں چھیڑتی جس سے کردار زندہ اور متحرک نظر آئے۔ دلیپ کمار نے اپنی زندگی میں جو بھی مشہور کردار کیے ان کردار میں وہ ڈوب گیا۔ اگر ہم بنگالی ادیب شرت چندر چیٹرجی کی ناول ’’دیوداس‘‘ کو پڑھتے ہیں تو اس میں ہمیں وہ کردار نظر آتا ہے جو کردار ناول کے مصنف نے اپنے تصور میں تخلیق کیا تھا۔دیوداس فلم کو دیکھنے کے بعد فلم بینوں اور فلمی نقادوں کو ایسا محسوس ہوا کہ شرت چندر چیٹرجی نے یہ کردار دلیپ کمار کے لیے تخلیق کیا تھا۔ دلیپ کمار اس کردار میں اس قدر تحلیل ہوگیا کہ فلم مکمل ہونے کے بعد بھی وہ کرداران کی شخصیت پر چھا گیا اور اس طرح وہ صرف ایک کردار ادا کرتے ہوئے ناول کے ہیرو کی طرح ڈپریشن کے مریض ہوگئے۔دلیپ کمار کو اس کردار سے الگ ہونے کے لیے ماہر نفسیات کا سہارا لینا پڑا۔ دلیپ کمار صرف ایک اداکار نہیں تھے وہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ ادیب نہیں تھے مگر بر صغیر کے بڑے بڑے ادیب ان کے گہرے دوست تھے۔ دلیپ کمار کے سینے میں ایک ایسا دل تھا جس میں شاعری کی ستار بجتی رہتی تھی۔ انہیں اردو زباں پر اس قدر عبور تھا کہ جب وہ فیض احمد فیض اور خاص طور پر جوش ملیح آبادی کی شاعری کو پڑھتے تھے تب ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سخن میں سانس ابھر آئی ہو۔ دلیپ کمار کتابوں سے عشق کیا کرتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ الفاظ کس طرح ترنم میں اترتے ہیں اور کس طرح ماحول پر سحر طاری کردیتے ہیں۔ دلیپ کمار کی شخصیت میں ایسی گہرائی تھی جو کسی اور فلمی اداکار میں نہیں تھی اور آج تک نہیں ہے۔ وہ بالی ووڈ انڈسٹری کے پہلے ’’خان‘‘ تھے اور ان کے بعد آنے والے اداکاروں نے ان کی نقالی کی۔ دلیپ کمار انوکھی شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے بھارت میں رہ کر تعصب کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کے خلاف سازشیں ہوئیں۔ ان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔ ان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ بھارت کی شیو سینا نے دلیپ کمار کی شخصیت کو توڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کے زور لگائے مگر وہ ساری سازشوں کا مقابلہ ایک پہاڑ بن کر کرتے رہے۔ ان پر جب بھی بجلیاں کڑکیں تب اس پہاڑ کا حسن پہلے سے بھرپور نظر آیا۔وہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک دور تھے۔ اس وقت بھی بھارتی حکومت انہیں ریاستی پروٹوکول دینے پر مجبور ہے۔ حالانکہ اس وقت بھارت پر ان قوتوں کا قبضہ ہے جو مسلمان لفظ سے بھی نفرت کرتے ہیں مگر دلیپ کمار نے اپنے مذہب اور اپنے کلچر کے ساتھ آزاد زندگی گزاری۔ وہ اگر چاہتے تو بھارت کو نیچا دکھا سکتے تھے۔ وہ اپنی شہرت اور اپنی محبوب شخصیت کے ساتھ بہت کچھ کر سکتے تھے۔ مگروہ ایک وضع دار انسان کے مانند بھارت میں رہتے ہوئے اپنی روایات کے پاسبان رہے۔ انہوں نے اپنے مفاد کی خاطر کبھی بھی بھارت کے رنگ میں رنگنے کی کوشش نہیں کی اور وہ کیوں کرتے؟ دلیپ کمار جیسے انسان تاریخ کے تاج پر ہیرے کی طرح چمکتے ہیں۔ دلیپ کمار نے جب شہزاہ سلیم کا کردار ادا کیا تب تاریخ ایک کروٹ لیتی نظر آئی۔ دلیپ کمار کے بعد پورے برصغیر کو محسوس ہوا کہ ایک اداس شہزادہ کس طرح باغی بنتا ہے۔ عشق ایک نامکمل ناول کا نام ہے۔ عشق ایک بغاوت کا روپ ہے۔ عشق زنجیروں میں جکڑ کر بھی آزاد ہوتا ہے۔ عشق ایک عیاش شہزادے کے بس کی بات نہیں۔ عشق صرف اور صرف ایک اداس شہزادہ کر سکتا ہے اور وہ اداس شہزادہ دلیپ کمار تھا۔دلیپ کمار جیسے کردار تاریخ پر ان مٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ تاریخ ایسے کرداروں کو اپنے دل میں اس طرح محفوظ رکھتی ہے جس طرح ایک سمندر کی گہرائی میں ایک سیپ موتی کو ۔ دلیپ کمار جیسے انسان صرف امن کے لیے نہیں بلکہ انصاف کے لیے بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ دلیپ کمار بھارت کے دل میں ایک طوفاں تھے۔ ایسے طوفاں جیسے طوفاں کے لیے ان کے دوست شاعر فیض احمد فیض نے لکھا تھا: ’’طوفاں بہ دل ہے ہر کوئی دل دار دیکھنا گل ہو نہ جائے مشعل رخسار دیکھنا کوئے وفا میں قحط خریدار دیکھنا ہم آگئے تو گرمی بازار دیکھنا‘‘