’’پیارے صدر اوبامہ: آج مجھے مطلع کیا گیا کہ 30 جون 2009ء سے میں بھی ملک میں بیروزگاروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی صف میں شامل ہو جائوں گا۔ رات کو بچوں کو ان کے غرفہ میں سلاتے ہوئے میں ایک تکلیف سے لڑ رہا تھا۔ مجھے لگتا ہے یہ درد مجھے کھا جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک والد کے طورپر میرے پاس وہ سہولتیں اور گنجائش نہیں رہی جو میرے والد کے پاس مجھے دینے کے لیے موجود تھی۔ میں اپنے بچوں کی آنکھ میں دیکھتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ یہ کہنے کی ہمت نہیں اب رکھتا کہ اگر تم جان لڑا کر محنت کرو اور ایثار کا مظاہرہ کرو تو ہر کام ممکن ہے۔ مجھے آج پتہ چلا کہ میرے بچو تم سب کام درست کرو پھر بھی یہ کافی نہیں کیونکہ تمہاری حکومت نے تمہیں فیل کردیا ہے۔ اگرچہ ہماری حکومت امریکہ کی مڈل کلاس کو تحفظ دینے اور اس کی مدد کرنے کی بات کرتی رہی ہے لیکن جو کچھ میں نے دیکھا وہ اس کے برعکس ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ حکومت لابنگ کرنے والوں اور خصوصی مفاداتی گروپوں کو مراعات دے رہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ مالیاتی اداروں کو بحران سے نکالنے کے لیے اربوں ڈالر کے بیل آئوٹ پیکج دیئے گئے… صدر گرامی‘ آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس جذباتی فضا میں گھلی رات کو مجھے اپنے خیالات کو آواز میں بدلنے کا موقع دیا۔ مخلص نکول برینڈن‘ ورجینیا‘‘ ’’ میں بہت دنوں سے Butte اور Montana کی انتخابی مہم پر تھا۔ دل میں اک چور تھا کہ خاندان کو وقت نہیں دے پارہا۔ پھر مشعل اس بات پر تیار ہو گئی کہ وہ بچیوں کو ملانے لے آئے گی۔ چار جولائی مالیا کی دسویں سالگرہ تھی۔ میری بہن مایا اور اس کا خاندان بھی آنے کوتیار تھا۔ وہ سب میری تقریر دور کھڑے سن رہے تھے‘ ہاتھ ہلا رہے تھے۔ شام ہوئی تو میں کچھ فارغ ہوا۔ ہم نے وہیں سالگرہ کا کیک کاٹا۔ میرے ساتھیوں نے جانے کہاں سے چند غباروں کا انتظام کیا۔ مقامی مارکیٹ سے پیزا اورسلاد مل گئے۔ مالیا بہت مایوس تھی۔ پھر کسی نے آئی پوڈ کا سپیکر آن کردیا۔ مالیا اور ساشا نے کرسی میں دھنسے بیٹھے میرے ہاتھ پکڑ کر اٹھنے کو کہا۔ جلد ہی بیونسے اور جونس برادرز کے نغموں پر ہم سب تھرک رہے تھے‘ میں بیٹھ گیا تو مالیا میری گود میں آ گئی‘ اس نے کہا ’’ڈیڈی یہ سب سے اچھی سالگرہ ہے‘‘ میں نے پیشانی کو چوم کر بیٹی کو گلے لگا لیا تاکہ وہ میری آنکھوں میں اتری نمی نہ دیکھ سکے۔‘‘ ’’1983ء میں جب میں نے گریجوایشن مکمل کی تو معلوم نہیں تھا کہ اپنے اونچے خیالات کو سچ کرنے کے لئے میں کہاں جاوں۔ ایسی کوئی تحریک نہ تھی جس میں شامل ہوتا‘ ایسا کوئی بے غرض لیڈر نہ تھا جس کی پیروی کرتا۔ میں جو کرسکتا تھا وہ یہی تھا کہ سماجی سطح پر لوگوں کو منظم کرنے پر توجہ مرکوز کروں۔ نچلی سطح پر جا کر کام کروں تاکہ عام لوگ مقامی مسائل پر اکٹھے ہوں۔ نیویارک میں دو تین غیر موزوں سی ملازمتیں چھوڑنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ شکاگو میں ایک جگہ خالی ہے‘ وہاں ایک لوہے کا کارخانہ بند ہونے سے پریشان افراد کی بحالی کے لیے کئی گرجا گھر مل کر کام کر رہے تھے ۔یہ ایک گروپ کی صورت میں سرگرم تھے۔ میں وہاں گیا ، لوگوں کی مشکلات سے واقفیت حاصل کی ، انہیں بتایا کہ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔میرے کام کو سیاہ فام برادری میں پسند کیا گیا اور پھر سیاہ فام ورکنگ کلاس میرے کاموں کو سراہنے لگی۔مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس شہر کے لوگوں کو تبدیلی سے آشنا کیااور اس شہر نے مجھے بدل دیا۔ یہاں میں نے اپنی نسلی شناخت سے متعلق کب کے منتظر جواب سوالوں کو حل کیا۔‘‘ ’’میرا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں تھا۔ میرا ننھیال سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ سے آئے خاندان پر مشتمل تھا۔ میری ماں این ڈینہام بہت مختلف تھیں‘ اپنا مضبوط اور الگ نکتہ نظر رکھنے والی۔ انہوں نے کئی شاعروں اور فرانس کے وجودیت پسندوں کو پڑھ رکھا تھا‘ میری ماں کے نزدیک فرد ایک سیاسی شخصیت کا نام ہے‘ تاہم وہ خود عملی طور پر سیاست کے زیادہ قریب نہ رہیں۔میں نے باپ کو کبھی نہیں دیکھا تھا‘ بس یہ معلوم تھا کہ وہ کینیا میں سرکاری ملازم ہیں۔ میں جب 10 برس کا تھا تو وہ ڈیڑھ ماہ کے لیے ہمارے پاس رہنے کے لیے آئے تھے۔ میرے نانا نانی مجھے ایک جج یا پیری میسن جیسا وکیل دیکھنا چاہتے تھے۔ میری ماں اور نانا نانی خود کو خوامخواہ محب وطن دکھانے کے قائل نہ تھے مگر چار جولائی کو وہ سب جھنڈیاں ہلا ہلا کر قومی دن کو ایک مقدس تیہوار کی طرح مناتے۔‘‘ ’’جب ہم ملے تو مشعل اس وقت وکالت شروع کر چکی تھی۔ وہ پچیس برس کی تھی اور شکاگو کی اسی لا فرم کے ساتھ کام کر رہی تھی جہاں میں نے لا سکول کے دنوں میں کچھ عرصہ کام کیا تھا۔ وہ سروقد ،خوبصورت‘ خوش مزاج‘ کشادہ دست اور انتہائی ہوشیار تھی۔ فرم نے اس کے ذمہ میرے معاملات لگائے کہ مجھے کوئی دقت نہ ہو۔ اس کا مطلب تھا کہ ہم لنچ کے لیے جا سکتے تھے‘ پہلے ہم نے اپنے کام کے متعلق باتیں کیں اور پھر ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے لگے۔ اس کے والد فوت ہوئے تو میں اس کے ساتھ گیا۔ میرے نانا کو پروسٹیٹ کینسر تشخیص ہوا تو مشعل نے میرا دکھ بانٹا۔ ہم دوست اور پھر محبت کرنے والے بن گئے۔‘‘ یہ اقتباسات سابق صدر امریکہ باراک اوبامہ کی حال ہی میں شائع ہوئی کتاب سے ترجمہ کئے ہیں، کتاب میں اوبامہ کی جھلک بتاتی ہے کہ ایک لیڈر ذاتی زندگی میں بھی خوبصورت ہوتا ہے ۔