پچھلے دنوں لاہور میں تھا ، الحمراء لاہور کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے تقاریب کا دعوت نامہ دیا گیا ۔ مجھے خوشی ہے کہ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے بہت اچھے پروگرام ہوئے ، ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ اور ’’ تعلیم‘‘ کے نام سے ڈرامے پیش کئے گئے ۔ 5 فروری کو بھی سیمینار ، یکجہتی کشمیر واک ، تصاویری نمائش بعنوان ’’ وادی میں خون ‘‘ ، قومی ترانوں پر مشتمل ایک میوزیکل شو ، ایک ڈرامہ بعنوان ’’ رنگ لائے گا کشمیریوں کا لہو ‘‘ پیش کیا گیا ۔چیف ایگزیکٹوکی قیادت میں ہونے والے ان پروگراموں میں وی آئی پی شخصیات نے شرکت کی اور الحمراء کے پروگراموں کو سراہا ۔ یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں 11 فروری کو ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ ڈرامہ پیش کیا جائے گا جبکہ 13 فروری کو ’’ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو ‘‘ خواتین کے لئے دوبارہ پیش کیا جائے گا ۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ، یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں پورے ملک میں تقریبات ہوئیں ، سرائیکی وسیب میں بھی یہ دن جوش وخروش سے منایا گیا ۔ الحمرا کی تقریبات کو دیکھ کر خواہش ہوتی ہے کہ ایک الحمرا وسیب میں بھی ہونا چاہئے ۔ الحمرا کی سال کی کارکردگی کا جائزہ لیں توخوشی ہوتی ہے کہ یہ ایسا ادارہ ہے جس نے اپنی مسلسل ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کے بل پر ایک اہم مقام حاصل کیا ہے۔ یہ ادارہ ہر روز ایک نئے عزم اور ادارے کے ساتھ کسی نہ کسی نئی سرگرمی کا ڈول ڈالتا ہے اور حکام و عوام کی نظر میں مزید محترم ہو جاتا ہے۔مگر میں یہ بھی کہوں گا کہ اگر الحمرا سرائیکی وسیب کو اس کی آبادی کے مطابق نمائندگی دے اور پروگراموں کا انعقاد کرائے تو اس کی توقیر میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ پچھلے ایک برس یعنی 2019ء میں یہ ادارہ سرگرم و فعال رہا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سال گزشتہ سال یعنی 2019، ماضی کے برسوں سے کئی گنا بہتر رہا ۔ پچھلے سال الحمراء آرٹس کونسل نے اپنے انتظامی سربراہ اطہر علی خان کی رہنمائی و نگرانی میں ثقافتی ، علمی و ادبی پروگرام تسلسل سے منعقد کروائے ، جن سے نہ صرف یہ کہ لاہور شہر کا ثقافتی و ادبی تشخص نمایاں ہوا بلکہ حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوا۔ الحمراء ادبی بیٹھک بظاہر ایک چھوٹی سی جگہ ہے لیکن اس نے 2019 ء میں پاک ٹی ہاؤس کے متبادل کے طور پر کام کیا۔ یہ ہمہ وقت ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں کی پناہ گاہ بنی رہی۔ یہاں لا تعداد کتابوں کی رونمائیاں ،مشاعرے اور ادبی تقریبات ہوئیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس بیٹھک میں پوٹھوہار اور سرائیکی خطے کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کو بھی بلایا جائے ۔ الحمراء کی ایک لائبریری بھی ہے جس میں ساڑھے چار ہزار سے زیادہ نہایت اہم کتب شائقین کے لئے رکھی گئی ہیں ۔ اس لائبریری میں الحمراء میں پیش کئے جانیوالے کمرشل اور نان کمرشل ڈراموں کے 660 مسودے بھی رکھے گے ہیں ۔ اس برس ان مسودوں کو ایک مرتب اور منظم شکل دی گئی ۔ انہیں ڈیجیٹل کر دیا گیا ہے۔ اب ڈرامے پر تحقیق کام کرنے والے ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز ان مسودوں سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ ملاقاتوں کے دوران مجھے چیف ایگزیکٹو اطہر علی خان ، ڈائریکٹر ذوالفقار ذلفی اور پروگرام آفیسر نیاز حسین لکھویرا نے بتایا کہ 2019ء میں الحمراء نے مختلف بڑے تعلیمی اداروں کے ساتھ باہمی اشتراک سے ثقافتی وا عملی تقریبات کے انعقاد کا ایک معاہدہ بھی کیا ۔ اسی معاہدے کے تحت پہلی بار کالجوں میں الحمراء کی طرف سے اصلاحی موضوعات پر ڈرامے پیش کئے گئے ۔اس سرگرمی سے نئے فنکاروں کی تلاش کا عمل بھی غیر محسوس طریقے سے شروع ہوا۔2019ء میں الحمراء نے فلم ڈرامے اور شعر و ادب کے زندہ شخصیات یعنی لیونگ لیجنڈز کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ’’ کچھ یادیں اور کچھ باتیں ‘‘ کے عنوان سے درجنوں پروگرام کئے گئے ۔ان پروگراموں سے نئی نسل ، پرانی نسل اور بڑوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آئی ، نئی نسل نے ان پروگراموں کو بہت پسند کیا ۔ ’’ روشن ستارے ‘‘ کے عنوان سے منعقد کئے جانے پروگرام بھی اس سلسلے کی کڑی ثابت ہوئی ۔ جو کہ اچھی بات ہے، اس موقع پر میں یہ بھی عرض کروں گا کہ ان پروگراموں میں وسیب کی نمائندگی بھی شامل ہونی چاہئے کہ خوش قسمتی سے تینوں افسران کا تعلق وسیب سے ہے ‘ خدانخواستہ وسیب کو الحمرا میں پوری نمائندگی نہ ملی تو اہلیان لاہور طعنہ دیں گے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ الحمراء میں وسیب سے انصاف نہیں ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ افسران نے مجھے یہ بھی بتایا کہ الحمراء کلچرل کمپلیکس میں الحمراء میوزیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس میں 260بڑے فنکاروں کو پرنٹ کی شکل میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ان کا باقاعدہ ایک کیٹلاگ بھی تیار کیا گیا ہے۔یہ میوزیم ہر ہفتے کے ساتوں دن کھلا رہتا ہے ۔ اس میں عوام اور فنکاروں کی دلچسپی بھی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ الحمرا کی کارکردگی جہاں اس کے سربراہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر اطہر علی خان کی توجہ کا ثمر ہے ، وہاں الحمراء کے چھوٹے اور بڑے گریڈ کے تمام ملازمین کی محنتوں کا نتیجہ بھی ہے۔ ان کو اس سے بڑے عہدے پر ہونا چاہئے ۔ اب میں بات کروں گا جھوک سرائیکی میں فنکاروں کی بہبود کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کی ، جس میں فنکاروں کی کثیر تعداد نے شرکت کی اور قراردادیں پاس ہوئیں ، جن کے مطابق :سائونڈ ایکٹ سے فنکاروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے ، ایکٹ میں اسمبلی سے ترمیم ہونی چاہیئے۔ آرٹسٹ سپورٹ فنڈ میں اضافہ کی درخواست ہے۔ وسیب میں الحمرا طرز کی آرٹس کونسل کے ساتھ صوبہ میں آرٹس کونسلز کا دائرہ ڈسٹرکٹ سطح تک آنا چاہیئے اور آرٹس کونسلوں کے ملازمین کو دیگر محکموں کے مساوی مراعات اور بعد از ریٹائرمنٹ پنشن کا حق حاصل ہونا چاہیئے۔ فنکاروں نے بتایاکہ بہاول پور آرٹس کونسل کی نئی عمارت کی تعمیر سالہا سال سے التوا کا شکار ہے ، رحیم یار خان،جھنگ اور میانوالی میں نئی آرٹس کونسلیں بننی چاہئیں۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لنگوئج آرٹ اینڈ کلچر’’پلاک‘‘ طرزکا ادارہ وسیب اور پوٹھوہار میں بھی ہونا چاہیئے۔ رائٹرز ویلفیئر فنڈ کا دائرہ ڈسٹرکٹ سطح تک بڑھانا چاہیئے۔ صوبے میں ماں بولیوں میں تعلیم کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ پاکستانی زبانیں زندہ رہ سکیں۔ حکومت سرائیکی کی سرپرستی اسی طرح کرے جیسے سندھ حکومت سندھی زبان و ثقافت کی کرتی ہے۔ سندھی ادبی بورڈ ، سندھیالوجی اور سندھی لینگوئج اتھارٹی جیسے ادارے سرائیکی وسیب میں بھی قائم ہونے چاہئیں ۔ صوبے کے لنگوئج نیوز پیپرز ؍رسالے و جرائد کو اشتہارات دئیے جائیں تاکہ وہ زندہ رہ سکیں، ماں بولی کش اقدامات سے گریز کی ضرورت ہے۔اُمید ہے کہ فنکاروں کی ان معروضات پر ہمدردانہ غور فرمایا جائے گا ۔