حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو سندھ میں اتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے جتنی اسے توقع بھی نہیں تھی۔ اس بار تو پیپلز پارٹی انتخابی مہم کے دوراں سخت پریشان تھی۔ جس طرح سندھ کے نوجوان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کا احتساب کر رہے تھے؛ اس کے ڈر سے پی پی کے مضبوط امیدوار بھی کارنر میٹنگز میں جانے سے گھبرا رہے تھے۔ جس رات انتخابات کے نتائج کا اعلان ہو رہا تھا اس رات پیپلز پارٹی کے کہنہ مشق امیدوار بھی کانپ رہے تھے۔ مگر جب مجموعی نتائج کا اعلان ہوا تب پیپلز پارٹی کے خاموش حلقوں میں خوشی کے ڈھول بجنے لگے۔ وہ جی ڈی اے جس کی قیادت کو پورا یقین تھا کہ اس بار سندھ میں ان کی حکومت بنے گی وہ اس وقت احتجاجی تحریک چلانے کے اعلانات کرنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ کس کو معلوم تھا کہ پیر پگارا کی سربراہی میں انتخاب لڑنے والے ذوالفقارمرزا بدین، ارباب رحیم تھر اور جی ایم سید کے پوتے جامشورو اور نواب شاہ سے ہار جائیں گے!؟ انتخاب سے چند روز قبل پیپلز پارٹی اپنے ناراض امیدواروں کی ان ملاقاتوں سے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا تھی جو امیدوار جی ڈی اے کے رہنماؤں سے ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ پیپلز پارٹی کو انتخابات کے دوران سب سے زیادہ پریشان مخدوم امین فہیم کے فرزند مخدوم جمیل الزماں نے کیا تھا۔ مخدوم جمیل آخری وقت تک جی ڈی اے کا ساتھ دینے پر بضد تھے۔ جب ہالا میں سیدقائم علی شاہ اور سید مراد علی شاہ مخدوم جمیل الزماں کے منانے آئے تب سروری جماعت کے سربراہ نے صاف انکار کردیا۔ اس کے بعد انہیں راضی کرنے کے لیے آصف زرداری کو میدان میں اترنا پڑا۔ مخدوم خاندان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمیل الزماں نے آصف زرداری سے صاف الفاظ میں مطالبہ کیا تھا کہ وہ صرف اس شرط پر پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑیں گے اگر کامیابی کے بعد اسے سندھ کا وزیر اعلی بنایا جائے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے آصف زرداری نے ان سے دبے الفاظ میں وہ وعدہ بھی کرلیا۔ مگر جب پیپلز پارٹی کو اس کی امید سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں تب پی پی قیادت کے تیور تبدیل ہوگئے۔اب مخدوم جمیل الزماں بھی پیپلز پارٹی کے باغی امیدواروں کی طرح بہت پریشان ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابات سے قبل بھی یہ اعلان کیا تھا کہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر اس بار بھی سید مراد علی شاہ کو بٹھایا جائے گا اور انتخابات کے بعد بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے یہی اعلان ہوا ہے مگر پیپلز پارٹی میں اب تک یہ سوال موجود ہے کہ سندھ کا سی ایم کس کو بنایا جائے گا؟ سندھ کا وزیر اعلیٰ بننے کا امیدوار صرف مخدوم جمیل الزماں ہی نہیں بلکہ تین بار چیف منسٹر رہنے والا وہ قائم علی شاہ بھی ہے جو معمر ہونے کے باوجود چوتھی بار بھی چیف منسٹر بننے کی کوشش میں مصروف ہے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کے حلقوں میں یہ بات عام تھی کہ اس بار وزارت اعلیٰ کے منصب پر آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کو براجمان کیا جائے گا ۔ مگر یہ بات اس وقت کی تھی جب آصف زرداری اور فریال تالپور پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ نہیں بنا تھا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی مخصوص پوزیشن کی وجہ سے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا۔ اس حوالے سے اب تک یہ امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ سندھ حکومت کی سربراہی فریال تالپور کے حوالے کی جائیگی۔ آصف زرداری کی اب تک یہ خواہش ہے کہ ان کی بہن سندھ کی وزیر اعلیٰ بنے ؛ لیکن اگر فریال تالپور کو وزیر اعلیٰ بننے کی اجازت نہیں ملتی تو وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے فریال تالپور کا امیدوار مراد علی شاہ نہیں بلکہ سہیل انور سیال ہے۔ جب کہ بلاول بھٹو زرداری کی خواہش ہے کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو بنایا جائے۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم عبداللہ شاہ کا بیٹا پیپلز پارٹی کے حلقوں میں مضبوط حیثیت کا مالک رہا ہے۔ وہ صحت اور کارکردگی کے حوالے سے نہ صرف موزوںامیدوار ہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے حامی سندھی مڈل کلاس کی بھی یہ خواہش ہے ۔اس بار بھی سید مراد علی شاہ کو وزیر اعلیٰ سندھ بنایا جائے مگر آصف زرداری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ سرپرائز دینے کے شوقین ہیں۔ اس حوالے سے جب تک پیپلز پارٹی کی طرف سے سندھ کے سی ایم کے لیے حتمی نام کا اعلان نہیں ہوتا تب تک مراد علی شاہ کو بھی اپنے سی ایم بننے کا اور وزیر اعلی سندھ بننے کے امیدواروں کو وزیر اعلیٰ نہ بننے کا یقین نہیں ہو پائے گا۔ پیپلز پارٹی میں اس وقت بھی سی ایم شپ کے لیے لابنگ اپنے عروج پر ہے مگر آصف زرداری سب سے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں فی الحال وفاقی حکومت میں کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا جائے اور انہیں سی ایم شپ کے سلسلے میں پریشان نہ کیا جائے؛ کیوں کہ سندھ حکومت تو پیپلز پارٹی کی جیب میں پڑی ہوئی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت بنانے کے لیے عمران خان کی کمزور پوزیشن کا پیپلز پارٹی کتنا فائدہ حاصل کر سکتی ہے؟ پیپلز پارٹی کے وہ لوگ جو کل تک یہ کہہ رہے تھے کہ آصف زرداری پیپلز پارٹی کی دکھتی ہوئی ایڑی Achilles heelہیں، وہ اب ایک بار پھر آصف زرداری کے سیاسی چالوں کی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتے۔ آصف زرداری کے حامی یہ بات فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ان کے قائد نے جس طرح ابتدا میں کہا تھا کہ حکومت وہ پارٹی بنائے گی جس کی حمایت پیپلز پارٹی کرے گی، ان کی یہ بات وقت ایک بار پھر سچ ثابت کر رہا ہے۔ اس طرح حالیہ انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی پر آصف زرداری کی ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت ایک بار پھر مضبوط ہو چکی ہے۔ آصف زرداری کی موجودہ پوزیشن کی وجہ سے وہ سارے افراد عدم تحفظ کا شکار ہیں جنہوںنے انتخابات سے پہلے پی پی قیادت اور خاص طور پرآصف زرداری کو کافی پریشان کیا۔ پیپلز پارٹی نے اب تک سی ایم سندھ کے لیے فیصلہ نہیں کیا، اس لیے حتمی فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے وہ سابق وزراء بھی امید سے ہیں کہ سی ایم سندھ کے لیے ان کے نام کا اعلان بھی ہوسکتا ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی سیاسی سندھ کے طاقتور خاندانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس لیے سی ایم شپ کے سلسلے میں سیاسی چالیں کم اور ذاتی چالیں زیادہ چل رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے وہ افراد جو ووٹ بینک نہیں رکھتے مگر ان کا تجربہ اور ان کی پارٹی سے رفاقت بہت زیادہ ہے وہ اس بات پر اصرار کر رہے کہ سندھ کے وزارت اعلیٰ کے لیے اس بار ذاتی پسند اور ناپسند کو اہمیت دینے کے بجائے اہلیت کو مدنظر رکھا جائے۔ ان کا موقف ہے کہ پارٹی قیادت کویہ بات تو ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اس بار وفاق میں نواز لیگ کی حکومت نہیں ہے۔ اس بار پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بننے جا رہے ہیں اور عمران خان احتساب کے دائرے میں سندھ حکومت کو بھی داخل کرسکتے ہیں۔ اس لیے وزیر اعلیٰ کے لیے اس شخص کا انتخاب کیا جائے جس کا دامن صاف ہو اور جو سندھ حکومت کو احتیاط سے چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ انتخابات کے دوران تو بلاول بھٹو نے یہ دعوے کیے تھے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کی مثالی خدمت کی ہے مگر اب پی پی کی سابق سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی کا اعتراف انہوں نے اس اعلان کی صورت میں کیا ہے کہ اس بار سندھ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ سندھ کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کواس بار جن حالات میں تیسری بار حکومت کرنے کا حق دیا ہے اگر سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومتی کارکردگی میں بہتری نہیں دکھائی تو یہ بھی ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کوپھر کبھی سندھ پر حق حکمرانی حاصل نہ ہوپائے۔ پیپلز پارٹی کے دوراندیش افراد تو اس حقیقت سے آگاہ ہیں مگر اقتدار کے مزے لینے کے لیے بے چین افراد حال کی حقیقت اور مستقبل کی صورتحال پر نظر رکھنے کے بجائے سندھ حکومت کا تاج اپنے سر پر دیکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ سندھ کا نیا سی ایم کون ہوگا؟ اس سوال کا حتمی جواب ابھی تک کسی کے پاس نہیں، مگر سادہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کی سرکار وہ انار ہے جس کو حاصل کرنے کی خواہش میں پیپلز پارٹی کا ہر ایم پی اے بیمار ہے۔