سب سے بڑی اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ جہاندیدہ سینئر سیاستداں کئی بار منتخب ہونے والے خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے ن لیگ کے سینئر ترین رہنما شاہد خاقان عباسی ،دائیں بائیں بیٹھے منہ میں ۔۔۔۔ڈالے بیٹھے تھے۔۔اور ان سے کہیں زیادہ جونیئر محض سابق وزیر اعظم ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی ہونے کے ناطے ن لیگ کی جونیئر نائب صدر مریم نوا ز ایک ایسا انکشاف کررہی تھیں جبکہ اُن کے دائیں ،بائیں بیٹھے ہمارے سابق وزیر اعظم خاقان عباسی اورمحترم شہباز شریف اپنی باڈی لینگویج سے یہ تاثر دے رہے تھے کہ’’یہ سودا‘‘بکنے والا نہیں۔اول تو پاکستانی سیاست میں ’’آڈیو،ویڈیو‘‘کی بنیاد پر عدلیہ پر دباؤ یا اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کی ،حکومتوں کی روایت کوئی نئی بات نہیں۔اس طرح کی وڈیو ،آڈیوکے انکشافات پر متعلقہ افراد اور ادارے نہ تو کبھی معتوب ٹھہرائے گئے اور نہ ہی کوئی ایسی وطن عزیز میں Moralityیعنی اخلاقیات کی کوئی روایت ہے۔کہ اس بنیاد پر معذرت کے ساتھ متعلقہ افراد کے چہرے ایسے ’’سیاہ‘‘کئے جائیں کہ جس کے بعد وہ مستقبل میں منہ دکھانے کے قابل نہ ہوں۔حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ شہرت پانے والا اسکینڈل تو جسٹس عبدالقیوم اور جسٹس راشد عزیز کا ہی ہے۔اُس وقت کے لاء منسٹر ممتاز قانون دان محترم خالد انور تھے،وزیر اعلیٰ شہباز شریف ،وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مرکزی کردار بدنام زمانہ سینیٹر سیف الرحمٰن ۔۔۔آڈیو ریکارڈنگ میں سینیٹر سیف الرحمٰن ایک نہیں متعدد بار جسٹس قیوم پر زور ڈال رہے ہیں کہ ’’چھوٹے،بڑے میاؤں‘‘کا اصرار ہے کہ ’’ کوٹیکنا کیس‘‘میں جلد سے جلد سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو وہ سزا دیں۔ساری گفتگوبہ زبان پنجابی ہورہی تھی۔جس میں نیم راضی جسٹس قیوم پہلو بدل بدل کر کہہ رہے تھے کہ۔۔۔’’تسی ذرا صبرکرو‘‘۔۔۔’’تسی اُناں نال گل کرو‘‘۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ ان آڈیوز کو دستاویز ی شکل میں محفوظ کیاگیا ہے یا نہیں یا پھر۔۔۔۔لیکن اگر ایسا بھی ہوجاتا توہمارے ان حکمرانوں اور جو ڈیشری کے سرخیلوں کا کیا بگڑتا۔ماشاء اللہ آج یہ سارے کردار موجود ہیں۔ہمارے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے تو انہی جسٹس عبدالقیوم کو اٹارنی جنرل کے منصب پر فائز بھی کیا تھا۔چھوٹے میاں صاحب اس کے بعد بھی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔آگے بڑھنے سے پہلے نیب کے جج راشدملک اور لیگی نوسرباز ناصر بٹ کے درمیان لیک کی یا کروائی جانے والی آڈیو ،ویڈیو سے پہلے نیب کے سربراہ محترم و معتبر جسٹس (ر)جاویداقبال کی ویڈیو کا انجام ہی دیکھ لیں۔مہینہ اوپر ہونے کو آرہا ہے ۔سرکار میں پروٹوکول کے اعتبار سے ’’پانچویں یا چھٹی بڑی شخصیت‘‘کے بارے میں ایک مشہور زمانہ خاتون کی ویڈیو میں کی جانے والی گفتگو اور پھر مبینہ ملاقات پر مبنی ویڈیو سوشل میڈیا پر ریکارڈتوڑوائرل ہوئی ۔پکڑ دھکڑ اور مقدمہ چلنے کی ہلکی پھلکی ، سریلی بازگشت بھی سنائی دی ۔تمام تر احترام کے ساتھ ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نیب کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال اپنے عہدے سے مستعفی ہوتے اور پھر ’’خاتون ‘‘سمیت پورے سازشی ٹولے کو ایسی مثالی سزا دیتے کہ جس کے بعد اس طرح کی بلیک میلنگ کی کسی کی جرأت نہ ہوتی۔حال ہی میں ہندوستان کے چیف جسٹس پر ایک خاتون اہلکار نے ہراسگی کا الزام لگایا تھا۔چیف جسٹس خود مستعفی ہوئے ۔ایک دوسرے جج پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنائی اور بعد میں با عزت بری بھی ہوئے ۔یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر جسٹس (ر) جاوید اقبال پر بنائی جانے والی مبینہ ویڈیو کے کرتا دھرتا ؤں کو اعلیٰ عدالت ۔۔۔’’بیچ چوک‘‘ منہ کالا کر کے کوڑے لگوا دیتی۔۔۔تو آئندہ کوئی اس طرح کی جرأت نہ کرتا۔اب یہ الگ بات ہے اور اس کا عدلیہ کے سرخیل ہی فیصلہ کریں گے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے حوالے سے نیب کے جج ارشد ملک اور ناصر بٹ کی ویڈیو ،آڈیواگر درست تھی تو اس کے سارے ہی کردار نہ صرف بے نقاب ہونے چاہئیںبلکہ انہیں مثالی سزائیں بھی دی جانی چاہئیں۔اور اگر یہ سارا کاسارا ’’جھوٹ کا پلندہ‘‘ہے ،جیسا کہ حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے ۔تو پھر ہماری قابل احترام مریم نواز سمیت لیگی رہنماؤں کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ حال ہی میں ہمارے "RAW/ISI" کے سربراہان کی مشترک تصنیف سامنے آئی تھی۔دنیا کے اور پاکستان، بھارت جیسے روایتی دشمن ملک کی سیکرٹ ایجنسیوں کی دنیا کے ایک تیسرے پر فضا ملک میں انتہائی خوشگوار ماحول میں قومی سلامتی کے حوالے سے حساس موضوعات پر جو گفتگو اس کتاب کی صورت میں سامنے آئی ہے۔۔۔ بلاشبہ اس بنیاد پردونوں کا اپنے اپنے ملک میں کورٹ مارشل ہونا تھا۔پاکستان کی حد تک خبر آئی تھی کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی کو جی ایچ کیو میں طلب بھی کیا گیا۔اور ان کا کورٹ مارشل ہونے کی خبریں بھی میڈیا میں گردش کرتی رہیں۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی دوران اُن کی ایک اور سنسنی خیز کتاب آگئی۔ Pakistan Adrift: Navigating Troubled Watersپہلے تو اس بات کی خوشی ہوئی کہ ماشاء اللہ ہمارے آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ جنرل اس عمر میں بھی ذہنی اور جسمانی طور پر اتنے صحت مند ہیں کہ سال بہ سال ایک کے بعد دوسری کتاب لا رہے ہیں۔محترم ریٹائرڈ جنرل اسد درانی کی کتاب بھی کچھ کم دلچسپ نہیں ۔اس بات کی پوری متقاضی ہے کہ اس پر ایک نہیں کئی بھرپور کالم لکھے جائیں۔چلتے چلتے ،صرف ایک جھلکی دیتا چلوں کہ محترم اسد درانی نے انکشاف کیا ہے کہ جب جسٹس ظل اللہ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ دینے جارہے تھے جس میں محمد خان جونیجو کی برطرفی کو ناجائز قرار دیا گیا تھا تو اُس وقت کے لاء منسٹر محترم وسیم سجاد کے ذریعے چیف جسٹس کو یہ پیغام دیا گیا کہ ’’اس طرح کے فیصلے سے قومی سلامتی کو سخت نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔