خدا جانے یہ سچ ہے کہ گپ، جو لوگ صبح سویرے اٹھ کے اخبار نہیں پڑھتے، وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر صحت مند رہتے ہیں۔ گویا فی زمانہ بے خبری اور عدم آگہی میں سکون اور چین و شانتی ہے۔ اس کے برعکس غور سے توجہ سے اخبار پڑھنے والے جلد یا بدیر ڈپریشن اور ذہنی تنائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وجہ کوئی اور نہیں، اخبارات میں خبریں ہی ایسی چھپتی ہیں کہ سائیکاٹرسٹ حضرات اپنے مریضوں کو پندرہ دن یا مہینے بھر تک دوا استعمال کرنے کے ساتھ اخبارات سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اخبارات میں جہاں مار دھاڑ، اغوا اور ہوش ربا بدعنوانیوں کی خبریں چھپتی ہیں وہیں اچھی اور پاکیزہ خبریں بھی تو چھپتی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی جہاں سنسنی خیزیت بریکنگ نیوز میں ہوتی ہے وہیں ایسے ٹکرز بھی دوڑتے دکھائی دیتے ہیں جن میں سوچ بچار کے دلچسپ پہلو بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً آج سہ پہر ہم نے اپنے ہی چینل کے ٹکرز میں پڑھا کہ حکومت، برطانیہ کے ہائیڈ پارک کی طرز پر لاہور میں ’’اسپیکر کارنر‘‘ کے نام سے ایک ایسا پارک قائم کرنے پر غور کر رہی ہے جہاں جس کا جی چاہے جا کر حکومت مقامی انتظامیہ وغیرہ کے خلاف اپنے جی کی بھڑاس نکال سکے اور تو اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ پارک میں حکومت کے ایسے مخبر بھی تعینات کئے جائیں گے جو حکومت پر نکتہ چینی کرنے والوں یا شکایت کنندگان کے اہم نکات کو نوٹ کیا کریں گے تاکہ عوامی مسائل اور شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ گویا جو اہتمام اور سہولت ہائیڈ پارک میں جانے والوں کو نہیں ہے وہ اسپیکر کارنر میں دل کی بھڑاس نکالنے والوں کو حاصل ہو گی۔ یہ فیصلہ حکومت کا نہایت دور اندیشی پر مبنی ہے اور ہمیں تشویش اس بات کی ہے کہ اس قسم کے پارک کے قیام کے بعد ہم کالم نگاروں کے کالم کون پڑھے گا؟ ہم لکھنے والے جو کچھ لکھتے ہیں، یہ سوچ کر لکھتے ہیں کہ کچھ ایسا لکھیں کہ پڑھنے والے پڑھ کر بے اختیار کہہ اٹھیں کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ تو جب عوام کو اپنے دل کاغبار اور اندر کی گھٹن نکالنے کا ایک عمدہ طریقہ میسر آ جائے گا تو پھر ہم کالم نگاروں کے کالم پڑھنے میں کوئی اپنا وقت کیوں گنوائے گا۔ زمانہ اطلاعات و واقعات کی تیز رفتار ترسیل کا ہے۔ آپ کسی کیساتھ بدتمیزی و بدتہذیبی کے ساتھ پیش آئیں، کسی کو جائز طور پر بھی زدوکوب کریں، کسی محفل کسی میٹنگ میں کوئی بھی خفیہ بات کہہ دیں، اگر آپ اہم آدمی ہیں تو آپ کی ویڈیو اگلے ہی دن وائرل ہو جائے گی اور آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ وقت جیسے جیسے آگے بڑھ رہا ہے طبقہ اشرافیہ کا جینا محال ہوتا جارہا ہے۔ ’’عام آدمی‘‘ طاقتور ہوتا جارہا ہے۔ یہ جو سوشل میڈیا ہے، یہ بھی عام آدمی کی طاقت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اس پر جو بھی شور شرابا مچتا ہے عام آدمیوں کا اور بالخصوص نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا اور اسپیکر کارنر میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی آپ جو کہنا چاہیں لکھ دیں، آپ کو تائید کرنے والے مل جائیں۔ انتخابات پر جتنا اثر انداز سوشل میڈیا ہورہا ہے شاید اخبارات و رسائل بھی نہیں ہورہے۔ اسپیکر کارنر کا آئیڈیا بھی عوام اور دوسرے لفظوں میں عام آدمی کو موثر بنائے گا۔ شاید اس کا اثر یہ بھی ہو کہ عوام کی دلچسپی اور سیاسی جلسوں میں شرکت کی گرم جوشی پہلے جیسی نہ رہے۔ لوگ باگ تو جلسوں میں اسی لیے جاتے ہیں کہ وہاں وہ حکومت کے خلاف دھواں دھار تقریریں سن کے اور نعرے لگا کے اپنے اندر کا بخار نکالا کرتے تھے لیکن جب اسپیکر کارنر میں انہیں یہ موقع مفت میں میسر آ جائے گا تو پھر انہیں سیاسی جلسوں میں شرکت کی کھیکھڑ سے ویسے ہی نجات مل جائے گی۔ اپنے کرائے کے آدمی جو رقم اَینٹھ کر جلسوں کی رونق بڑھاتے ہیں تو ان کے دام اور چڑھ جائیں گے۔ ہمیں اسپیکر کارنر کے قیام نے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کردیا ہے۔ برطانوی سیاست پر ہائیڈ پارک نے جو اثرات مرتب کیے ہیں اس کا احوال ہم عرصہ پہلے پڑھ آئے ہیں۔ انگریز اشرافیہ نے نہایت چالاکی اور دانش مندی سے جمہوری آزادی کی نکاسی کو ایک راستہ دکھایا۔ انسان جب اپنے اندرونی جذبات و احساسات کا اظہار کردیتا ہے تو وہ شانت ہو جاتا ہے۔ ایک طرح سے اس کا کتھارسس ہو جاتا ہے۔ بصورت دیگر گھٹن اندر ہی اندر لاوا بن کر پک جائے تو کسی وقت بھی کوئی معمولی واقعہ بھی حکمران کو اس کی حکومت کے ساتھ بہالے جانے کے لیے بہت کافی ہوتا ہے۔ صدر جنرل ایوب خان کی حکومت کیسی کروفروالی تھی اور اس سے کسے اختلاف ہو گا کہ صدر ایوب کے دور میں جیسی صنعتی اور اقتصادی ترقی ہوئی نہ پہلے ہوئی اور نہ بعد میں۔ لیکن اظہار بیاں پر پابندی اور سخت گیری نے قوم کے اندر اتنی اور ایسی گھٹن پیدا کردی تھی کہ شکر کی قیمت میں ذرا سا اضافہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا اور حکومت ان کی جاتی رہی۔ عوام کے ہر دلعزیز بھٹو نے بھی زباں بندی کی پالیسی اختیار کی، نتیجے میں ساری سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئیں او رعوام کی تائید سے ایسی تحریک چلی کہ معاملات بھٹو صاحب کے کنٹرول سے بھی باہر ہو گئے۔ حیرت کا پہلو یہ ہے کہ ان بڑے بڑے حکمرانوں کو کبھی یہ بات سمجھ میں نہ آ سکی کہ ہر آدمی ایک درجے پر پریشر ککر ہوتا ہے اور جب وہ پھٹ پڑتا ہے تو تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں لاتا۔ اس پریشر ککر کی اندرونی گھٹن کی نکاسی کا دوسرا نام ہائیڈ پارک یا اسپیکر کارنر ہے۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ہر زمانے میں کچھ نہ کچھ پابندیاں رہی ہیں کیونکہ کامل آزادی تو محض ایک خواب ہے۔ حکومت کی طرف سے سنسر شپ نہ ہو تو ادارے کی طرف سے ہوتی ہے اور اس سے بھی آزادی ہوتو سیلف سنسرشپ تو ہوتی ہی ہے کہ لکھنے والے کو اپنے تجربے و مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے کہاں تک جانا ہے اور کہتے کہتے کہاں پر پہنچ کر رک جانا ہے۔ ہائیڈ پارک میں رکنے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ اسپیکر کارنر میں بھی شاید ایسا ہی کچھ ہو۔ ہندوستان میں کانگریس کی داغ بیل ڈالنے والے مسٹر ہیوم نے جو ریٹائرڈ سرکاری افسر تھے، کانگرس کے قیام کے لیے وائسرائے سے مشورہ کیا تھا، جواز کانگرس بنانے کا یہ پیش کیا تھا کہ اس طرح ہندوستانیوں کو اپنے اندر کے چھپے ہوئے غم و غصے کی نکاسی کا موقع ملتا رہے گا کیونکہ اگر یہ موقع نہ ملا تو اندیشہ ہے کہ 1857ء کی طرح پھر بغاوت نہ پھیل جائے۔ مسٹر ہیوم کا مشورہ یہ تھا کہ کانگرس قائم کر کے اس کے اجلاس کی صدارت صوبے کا گورنر کرے اور دیسی یا مقامی آبادی کے نمائندوں کو اظہار جذبات کا موقع دیا جائے جس پر وائسرائے نے اختلاف کیا کہ گورنر کی موجودگی میں کوئی دیسی یا مقامی لیڈر سچائی سے کام لینے سے گریز کرے گا اس لیے اجلاس کی صدارت کا معاملہ بھی ان ہی لوگوں پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ الگ بات کہ کانگرس جلد ہی حکومت انگریزی کے گلے کی ہڈی بن گئی جسے نہ نگلا جا سکا نہ اگلا جا سکا۔ اس کے برعکس ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ہائیڈ پارک لندن کی طرز پر پارک بنا دیئے جاتے تو شاید انگریزوں کو ہندوستان میں قیام کا کچھ اور وقت مل جاتا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کو اسپیکر کارنر کے قیام کی تجویز کس نے دی؟ عجب نہیں کہ وزیراعظم عمران خان جن کا خاصا وقت لندن میں گزرا ہے اور جو ہائیڈ پارک کے تجربے سے بھی کماحقہ واقف ہوں گے، انہوں نے ہی یہ تجویز دی ہو۔ اگر ایسا ہے تو بھی یہ بہت خوب ہے اور ہم تو تب مانیں گے جب عائشہ گلالئی اور ریحام خان کو اس پارک میں جا کر دشنام طرازی کی اجازت ہو تاکہ ہمارا میڈیا اس گند سے پاک صاف رہے جو ماضی میں ان کے ذریعے پھیلایا گیا۔ ہمیں امید ہے کہ ان ہی نت نئے تجربات سے ایک نیا پاکستان وجود پذیر ہوگا۔ انشاء اللہ۔