کسی دوست کی اچانک رحلت کو یاد کرنا آسان نہیں۔ یہ احساس کتنا جانگسل ہے کہ اب وہ چہرہ کبھی دکھائی نہیں دے گا۔ میری مدیحہ گوہر سے پچیس سال پہلے لاہور میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہم نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ہماری دوستی ایک مضبو ط تعلق میں ڈھل گئی۔ مدیحہ گوہر توانائی، ذہانت اور تخلیق کا سرچشمہ تھیں۔ ایسے دوست بہت نایاب ہوتے ہیں جن سے تحریک بھی ملتی ہے اور تعاون بھی اور میں بہت خو ش قسمت ہوں مجھے مدیحہ کی صورت ایک ایسی دوست ملی۔ افسوس، مجھے 2014 ء میں پاکستان سے جانا پڑا۔ اس کی وجہ سے اُن سے بالمشافہ ملاقات کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ 

مدیحہ گوہر کی زندگی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اُنھوںنے بھرپور زندگی گزاری۔ اپنی فعال زندگی کے آغاز سے لے کر عالمی شہرت یافتہ اجوکا تھیٹر کی بنیاد اُن کی توانائی اور توجہ کے ارتکاز کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ لیکن شاید وہ خو د بھی اتنا کچھ نہیں کرسکتی تھیں اگر اُنہیں اپنے غیر معمولی طور پر باصلاحیت شوہر، شاہد ندیم کی حمایت حاصل نہ ہوتی۔ شاہد ندیم ڈرامہ نویس بھی تھے اور مدیحہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے محرک بھی۔ 

ضیا آمریت کے خلاف وسیع تر پیرائے میں ہونے والی سیاسی مزاحمت اجوکا تھیٹر کی بنیاد تھی۔ 1980 ء کی دہائی کے آغاز میں اُنھوںنے بادل سرکار کے ’’جلوس ‘‘ کو سٹیج پر پیش کیا۔اس ڈرامے کا موضوع حکمران اشرافیہ کی چشم پوشی تھی۔ حکمران عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے اپنے غیر ملکی آقائوں کے مفادا ت کا تحفظ کررہے تھے تاکہ وہ اس خدمت کے عوض اُن کے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے درکار سہارا دیں۔ یہ بندوبست آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔ 

1988 ء میں جنرل ضیا کے ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے سے گیارہ سالہ آمریت اختتام کو پہنچی۔ اجوکا نے زمانے کے دکھوں کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنا جاری رکھا۔ اس نے دیکھا کہ بظاہر جمہوری دور کی واپسی کے باوجود عوام سیاسی عمل سے لا تعلق ہیں۔ ایک عشرے پر محیط میوزیکل چیئرز کے کھیل پر 1999 ء میں پرویز مشرف کے شب خون نے فل سٹاپ لگادیا۔ تاہم ضیا دور کی تباہ کن وراثت انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی صورت پروان چڑھتی رہی ۔ 

اجوکا کے کھیل موجودہ پاکستان کی اہم تمثیل دکھائی دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کئی مرتبہ پیش کیا جانے والا کھیل ’’چاک چکر ‘‘ سیاسی اور عدالتی نظام ،ا ور ان کے ہاتھوں غریب عوام کے استحصال پر تنقید تھا۔ یہ کھیل آج کے معروضی حالات میں بھی برمحل ہے ۔ ’’برقعہ وگینزا‘‘ اور ’’ہوٹل موہنجو داڑو‘‘ کھل کر انتہا پسندی کو آڑے ہاتھوںلیتے ہیں۔غلام عباس کے افسانے پر مبنی ہوٹل موہنجو داڑو میں ایک فرضی ’’مذہبی ریاست ‘‘ دکھائی گئی ہے جو پاکستان کا مقدر بھی ہوسکتی ہے ۔ ڈرامے میں جب انتہا پسند ریاست اور معاشرے پر قبضہ کرلیتے ہیں تو وہ عوامی انصاف اور مساوات کو تباہ کردیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلکی جنونیت فروغ پاتی، او ر معاشرے کے لیے تباہی لاتی ہے ۔ اگرچہ اجوکا سٹیج پر پرفارم کرتا تھا، لیکن ا س کے موضوعات حقیقی اور بیرونی دنیا سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان میں حقیقت کاعنصر اس قدر نمایاں ہوتا کہ ناظرین اس کے ڈرامائی عنصر کو بھول کر اسے حقیقی سمجھ لیتے۔ یہی اصل فن ہے ۔

مجھے یاد ہے کہ مدیحہ بہت طمانیت سے بیان کررہی تھیں کہ لوگ اجوکا کی کارکردگی سے متاثر ہورہے ہیں۔ اب معاشرے کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی تھیٹر کو پذیرائی بخش رہے ہیں۔ لیکن مدیحہ کے لیے یہ کوئی آسان اور ہموار سفر نہ تھا۔ ان کے راستے میں ایک رکاوٹ افسرشاہی تھی تو دوسری انتہا پسندوں کاممکنہ ردعمل۔ ایک رکن ِ پارلیمنٹ نے تو ’’برقع وگینزا ‘‘ کے خلاف اسمبلی میں قرار داد بھی پیش کی تھی۔ تاہم یہ رکاوٹیں مدیحہ کا راستہ نہ روک سکیں۔ وہ عام انسانوں سے بہت مختلف تھیں۔ 

اجوکا کو ایوارڈز ملے ، اس نے بہت سے ممالک میں پرفارم کیا، اور یہ پاکستانی سول سوسائٹی کی جاندار علامت بن گیا۔ یہ محض اداکاروںکی ایک ٹیم نہ تھی ، اور نہ ہی مدیحہ محض ایک ہدایت کار تھیں۔ وہ خواتین اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کی وکالت کرتیں۔ 2014 ء میں اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اُنہیں پاسپورٹ آفس میں پریشانی کا سامنا کرناپڑا۔ اس کا تعلق پاسپورٹ فارم پر عقیدے سے متعلق ایک شق سے تھا۔ میں نے اُنہیں کہا کہ وہ فرائڈے ٹائمز میں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکتی ہیں۔ وہ کبھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے خائف نہیں ہوتی تھیں۔ وہ کبھی ہتھیار نہ ڈالتیں۔ اُن کا تین عشروں پر محیط کام انتہا پسندی، جنونیت، عزت کے نام پر قتل ، خواتین کے استحصال اور پسماندگی کے خلاف ایک طرح کی جنگ تھی۔ اور یہ جنگ اُنھوںنے تمام عمر جاری رکھی۔ گھریلو موضوعات کے علاوہ مدیحہ پاک بھارت امن کی بہت بڑی داعی تھیں۔ اجوکا نے عدم اعتماد اور دشمنی کی آگ میں سلگتے ہوئے ان دونوں ممالک کے درمیان مضبوط پل کا کردار ادا کیا۔ بھارتی پنجاب میں بھی اجوکا کے بہت سے چاہنے والے موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں بھی مدیحہ کی بے وقت رحلت کو محسوس کیا گیا ہوگا۔

بہت سی یادیں اس وقت میرے ذہن میں چکرا رہی ہیں۔ ہم باقاعدگی سے تھیٹر اور فلمی موضوعات پر بات کرتے، کتابوں کا تبادلہ کرتے ، مقامی فن پر باہمی دلچسپی کے موضوعات تلاش کرتے ۔ میں مدیحہ کے فن کا گرویدہ تھا۔ بعض اوقات تو شاہد اُن کے فن سے تنگ آجاتے ہیں۔ اُنہیں شکایت ہوتی کہ مدیحہ نے کمرے میں اس قدرچیزیں بھررکھی ہیں کہ گزرنے کی جگہ تک نہیں بچی۔ جب اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر میری تعیناتی مری میں ہوئی تو مدیحہ اکثر میر ے پاس ٹھہرتیں۔ مجھے یاد ہے کہ مدیحہ کا شمار اُن افرا د میں ہوتا ہے جنہوں نے میری کتاب، ’’دہلی بائی ہارٹ‘‘ سب سے پہلے دیکھی او ر میری حوصلہ افزائی کی ۔ اس کتاب کی تقریب ِرونمائی کے موقع پر بھی وہ موجود تھیں اور اُنھوںنے اس پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا تھا۔ اُنھوںنے زور دیا کہ میں مزید کتابیں لکھوں۔ 

میرے دکھ کا اظہار یقینا اس کرب کا احاطہ نہیں کرسکتا جو مدیحہ کے اہل خانہ محسوس کررہے ہوں گے : اُن کے رفیق ِ حیات شاہد، دوبیٹے، نروان اور سارنگ، اور بہن بھائی، فریال اور عامر۔ فیس بک پراُن کی قبر کی تصویر اور اس پر پھولوںکی پتیاں دیکھ کر میں خود پر قابو نہ رکھ سکا، اورمیری آنکھوںسے آنسو جاری ہوگئے ۔ لیکن زندگی کو دوام کہاں؟مدیحہ نے میری نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہت متاثر کیا ہے ۔ اجوکا کے بہت سے اداکار اور ناظرین اس وقت میڈیا اور فن کی دنیا میں اپنی صلاحیتوںکا اظہار کررہے ہیں۔بہت سے دیگر نے زندگی اور فن کو اجوکا سے سمجھا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آگاہی کی اس وراثت کا سفر جاری رہے گا۔ لیکن ہمیں مدیحہ بہت یاد آئیں گی۔ خدا اُنہیں اپنے جوار ِ رحمت میں جگہ دے ۔