ہمارے مین اسٹریم جماعتوں کے مرکزی قائدین کی کراچی میں آمد مہینوں بلکہ برسوں میں ہوتی ہے۔چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ اب وزیر اعظم عمران خان کو ہی دیکھ لیں ۔اپنے اقتدار کے گیارہ ماہ میں ،آٹھ ،دس بار کراچی آئے ہوں گے۔مگر شائد ہی کبھی کراچی میں شب بسری کی ہو۔پھر یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ تبدیلی کے دعویدار وزیر اعظم کا کراچی میں شیڈول بھی وہی رہتا ہے جو دہائیوں سے لگا بندھا ہے۔لگتا ہے کہ یہ اُسی Red Bookکے مطابق ہوتا ہے جو انگریز بہادر 1935ء کے انڈین ایکٹ کے مطابق بنا گئے تھے ۔دوپہر 12بجے آمد،فوراً ہی اپنے گورنر یا وزیر اعلیٰ سے ایک گھنٹے ملاقات ۔پھر ایک سے دو بجے مقامی کور کمانڈر اور پولیس حکام سے ملاقات ۔تین سے چار بجے مقامی تاجروںاور صنعتکاروں کے رو برو ۔۔۔وقت ملا تو 4سے 5بجے میڈیا اور پھر غروب آفتاب سے پہلے روایتی گپ شپ۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹواور اُن کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی بات دوسری تھی کہ اُن کا پہلا گھر کراچی تھا۔یوں ہفتہ اتوار تو اُن کا کراچی اورپھر اپنے آبائی گھر لاڑکانہ مہینے میں دو چار بار ضرورجانا ہوتا۔اس تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ جمعرات کی شام گرفتار ہونے والے سابق وزیر اعظم محترم شاہد خاقان عباسی جن دنوں وزیر اعظم تھے،تو کراچی میں اُن کی آمد دوسرے وزرائے اعظم کے مقابلے میں زیادہ رہتی تھی۔یہ سلسلہ اپوزیشن میں ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔شائد اس کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ وہ ایک طویل عرصے پی آئی اے کے چیئرمین رہے۔کیونکہ پی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے اس لئے اُس زمانے میں ان کا زیادہ وقت یہاںگزرتا جس کے سبب اُن کاکراچی میں حلقہ ٔ یاراں ہمیشہ بڑا ووسیع رہا اور یہ محض ،اُن کی جماعت کے قائدین تک محدود نہیں تھا۔خود کو اُن کے حلقہ یاراں میں سمجھنے کی تو جسارت نہیں کرسکتا ۔مگر یہ ضرور ہے کہ حکومت میںہوں یا اپوزیشن میں ،ملاقاتوں میں وقفہ ذرا کم ہوتا تھا۔ یوں جولائی کے پہلے ہفتے میں جب خاقان عباسی صاحب کی کراچی آمد ہوئی۔تو اگلے ہی دن کیمروں سمیت سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے گھر پہنچ گیا۔سب سے زیادہ حیرت یہ ہوئی کہ مفتاح صاحب کی وسیع و عریض کوٹھی ’’سائیں ،سائیں‘‘کا منظر پیش کر رہی تھی۔انٹرویو وہی روایتی ٹی وی والا تھا۔مگر مفتاح اسماعیل نے جو اب تک پکڑائی سے بچے ہوئے ہیں انٹرویو سے پہلے لقمہ دیا کہ ’’عباسی صاحب بتا رہے تھے کہ ان کا پہلا انٹرویوکوئی سترہ،اٹھارہ برس پہلے آپ نے ہی کیا تھا۔‘‘خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمارے وزیر اعظم بھلا کہاں اتنا یاد رکھتے ہیں۔وزیر اعظم ہوتے تو یہ جملہ نہیںلکھتا۔مگر ماضی قریب کے تمام وزرائے اعظم میں ہماری محترم خاقان عباسی سے ذرا زیادہ قربت رہی ۔ہاتھ ملاتے پوچھا بھی’’کب پکڑے جارہے ہیں؟‘‘ کہنے لگے۔’’مشرف کا بھی میں پہلا قیدی تھا۔ خان صاحب کی قید میں جانے کیلئے بھی تیاریاںپکڑی ہوئی ہیں۔گھر میںہوں یا سفر میں ،ایک چھوٹا بیگ ضرور ساتھ رکھتا ہوں ۔‘‘ اپنے انٹرویو میں محترم خاقان عباسی نے نیب اور اُن کے سرپرستوں پر جو بڑھ چڑھ کر حملے کئے اُس سے صاف لگا کہ اُن کا پکڑا جانا ’’ٹھہر گیا ہے‘‘۔ اب میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ جس ایل این جی کیس میں وہ گرفتار کئے گئے ہیں،عدالت میں وہ ثابت بھی ہوگا۔اور اس بنیاد پر انہیں لمبی مدت کی سزا بھی ملے گی۔گرفتاری سے پہلے نیب حکام سے اس کیس کے حوالے سے جو اُن کا طویل مکالمہ ہوا۔وہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔اپنے محترم و مکرم خاقان عباسی سے جو تعلق خاص کے باوجود ’’بصد احترام‘‘ اُن کے یا اُن کی قیادت کی کرپشن کے کیسز کا جو ’’دفترِ بے کراں ‘‘کھل رہا ہے۔ابھی جمعرات کو ہی ایک معاصر اخبار کے تیز و طرار کالمسٹ نے دیگر وزرائے اعظم کے ساتھ جو محترم خاقان عباسی صاحب کی شاہ خرچیوں کی داستان پیش کی ہے لگا کہ کہیں طلسم ہوشربا سے تو استفادہ نہیں کیا گیا۔معاصر کالم نویس لکھتے ہیں: ’’وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک سال میں 19غیر ملکی دورے کئے۔ 50دن بیرون ملک رہے۔214لوگوں کو سیریں کرائیں۔ 25کروڑ 95لاکھ90ہزار خرچہ آیا۔ 7کروڑ91لاکھ70ہزار ہوٹلنگ کا خرچہ۔ 89لاکھ 90ہزارکے کھانے ۔عباسی صاحب نے 78لاکھ 50ہزار کے تحفے دئیے۔ 50لاکھ 48ہزار کی ٹپ دی۔بیرون ملک دورے ،ایئر پورٹس گراؤنڈ ہنڈلنگ کے نام پر 4کروڑ 18لاکھ 50ہزار لگے۔وزیر اعظم عباسی نے19غیر ملکی دوروں کا 1کروڑ22لاکھ ٹی اے ڈی اے بھی وصول کیا۔‘‘ عباسی صاحب ان دنوں قید و بند کی ابتلاء میں ہیں۔اس لئے یہ سب کچھ تحریر کرنا اچھا نہیں لگ رہا۔ ۔ ۔ سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف ،بے نظیر بھٹو ،یوسف رضا گیلانی کے بارے میں بھی جو کچھ ان دنوں میڈیا میں آرہا ہے اُس پر بدقسمت قوم پر رحم ہی آتا ہے۔مگر چلتے چلتے پاکستان کے ابتدائی برسوں میں رہنے والے وزرائے اعظم میں سے صر ف ایک وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی مثال دیتا چلوں کہ مشرقی پاکستان کے نواب گھرانے سے تعلق تھا۔مگر اُن کی مالی حالت کے بارے میں ممتاز بیوروکریٹ فخر عالم زبیری نے اپنی کتاب’’گورنر جنرل ہاؤس سے آرمی ہاؤس تک‘‘میں لکھا ہے: ’’وہ ایک نہایت کشادہ دل انسان تھے اور دل کے بادشاہ تھے۔ایک روز انہوں نے بلایا اور کہنے لگے:’’زبیری صاحب آپ کے خیال میں میرے بینک میں کتنا پیساہوگا؟‘‘ میں کیا جواب دیتا ۔چپ رہا۔ پھر کہنے لگے۔’’مجھے اپنے کزن کو ایک خط لکھنا ہے ۔جو ڈھاکہ میں رہتا ہے۔مگر یہ خط میرے اور آپ کے درمیان راز رہے گا۔‘‘انہوں نے خط میں لکھوایا کہ میرے مالی حالات خاصے خراب ہیں(حالانکہ وہ اس وقت پاکستان کے گورنرجنرل تھے)حکومت سے جو کچھ ملتا ہے وہ سب خرچ ہوجاتا ہے۔بلکہ میرے اپنے پاس جو تھوڑا بہت اثاثہ تھا وہ بھی خر چ ہو چکا ہے۔میرا بینک بیلنس صفر ہے۔لہٰذا آپ فوراً دس ہزار روپیہ کا ایک ڈرافٹ مجھے بھیج دیں۔ جب یہ خط لکھ چکا تو انہوں نے اپنی جیب سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دیا اور کہا: ’’یہ میرا ذاتی خط ہے۔اسے رجسٹری کرادیجئے۔یہ خط سرکاری خرچ پر نہ بھیجیں اور کسی سے بھی اس کا ذکر نہ کریں۔‘‘اورجب وہ خط ٹائپ ہوگیا تو اس کی آفس کاپی اپنے پاس رکھ لی۔‘‘ کیا ہمارے حکمراں تاریخ پڑھتے اور اُس سے سیکھتے ہیں؟نہیں۔ہرگز نہیں۔