ایک اور پاکستانی چل بسا۔ وہ پیدائش سے پہلے بھی پاکستانی تھا۔ اس کا گھر ساہیوال میں کربلا روڈ پر تھا جو میرے گھر سے گویا بالکل متصل تھی۔ وہاں ایک بورڈ لگا ہوا تھا۔ عزیز پاکستانی، ان عزیز پاکستانی کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے پاکستان بننے سے بہت پہلے اپنے ساتھ پاکستانی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ طارق عزیز اسی پاکستانی کا بیٹا تھا۔ جی ہاں، یہی طارق عزیز جو پاکستان ٹی وی کا پہلا اینکر تھا اور جس کے پروگرام نیلام گھر نے برسوں کامیابی کے جھنڈے گاڑے رکھے۔ وہ مجھ سے بہت سینئر تھا۔ کالج میں ہم لوگ 67کا گروپ کہلاتے تھے۔ کئی لوگ تھے جنہوں نے نام کمایا اور اس سے پہلے ادب کے میدان میں 58کا گروپ تھا۔ فرق یہ تھا کہ 67کا گروپ اس برس بی اے کر رہا تھا اور 58کے گروپ میں بہت سے نامور لوگ کئی سال سے ایف اے کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں ناصر شہزاد، کوی مہاراج مشہور شاعر، اشرف قدسی جنہیں میں اپنا پہلا ایڈیٹر کہتا ہوں، طارق عزیز جو ان دنوں اپنی سریلی آواز میں ساتھیوں کے دل لبھایا کرتے تھے اور عمدہ شاعر تھے۔ مراتب اختر ان دنوں لاہور کے اسلامیہ کالج چلا گیا تھا۔ وہ بھی ایک طرح سے اسی ادبی محلے کا حصہ تھا۔ یہ وہ نسل تھی جو صرف اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ٹھوکریں کھاتی ہوئی زندگی کی راہیں تراش رہی تھی۔ طارق عزیز قسمت آزمانے لاہور چلے گئے۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان کے سوا باصلاحیت لوگوں کے لیے اور تھا کیا۔ میں نے وہ ’’کٹیا‘‘ دیکھی ہے جو مال روڈ پر دیال سنگھ بلڈنگ کے پچھواڑے گویا ایک ویرانے میں تھی جہاں طارق میرے دوست گوہر ہوشیار پوری کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ ایسی ہی کہانیاں جیسی ڈاکٹر مہدی حسن نے اس زمانے کے بارے میں سنائی ہیں، گوہر ہوشیار پوری سنایا کرتے تھے۔ یہ تو مجھے علم ہے کہ مہدی حسن ہم سے بہت سینئر تھے، یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ اور طارق عزیز ہم جماعت تھے۔ اس وقت شہر کی فضا میں ادب کا چرچا تھا۔ مجید امجد، منیر نیازی، جعفر شیرازی، پھر یہ سب جن کا میں نے اوپر تذکرہ کیا، طارق بھی اسی فضا کا حصہ تھے۔ مجھے اس زمانے میں مذاق میں لکھی ہوئی ہجویہ نظموں کے چند شعر اب بھی یاد ہیں۔اس میں ناصر شہزاد، اشرف قدسی کے ساتھ طارق عزیز کا بھی تذکرہ ہے، صرف ایک مصرعہ سن لیجیے۔ طارق سُر دار کی باتیں کریں طارق نے ریڈیو سے جس زندگی کا آغاز کیا، ٹی وی آن پر اس میں چار چاند لگ گئے۔ آواز کا جادو جگانے کا اسے موقع ملا مجھے وہ دن یاد ہے جب اس کی پہلی فلم ’’انسانیت‘‘ریلیز ہوئی۔ یوں سمجھیے ساہیوال(منٹگمری) میں جشن کا سماں تھا کہ ہمارا بچہ قومی سطح پر فنکار بن کر ابھرا ہے۔ میں نے طارق عزیز کو ساہیوال میں کم دیکھا ہے اور کراچی میں زیادہ۔ طارق میرے کزن خواجہ منظور اور ایک محمود صاحب یہ سب غالباً کلاس فیلو تھے اور دوست تھے۔ منظور میرے خالہ زاد تھے اور ہمارے پاس ہی رہتے تھے۔ ایک دن طارق اور محمود دونوں گزرتے ہوئے ہمارے گھر آئے تا کہ میرے اور اپنے دوست کے ماموں کو سلام کر سکیں۔ محمود صاحب بینک میں لمبی ملازمت کر کے لاہور کے پی سی ہوٹل میں ڈیرہ لگا کر بیٹھ گئے۔ اکثر وہاں نظر آتے اور جب بھی موقع ملتا، وقت نکال کر دوچار پرانی یادیں تازہ کر جاتے۔ میں نے بتایا کہ میں نے طارق عزیز کو اپنے گھر میں بھی دیکھا ہے۔ اس وقت بہت چھوٹا تھا، بہت فخر محسوس ہوا، زیادہ تر وہ جب ساہیوال آئے تو کیفے ڈی روڈ یا میڈیم ہوٹل میں مجید امجد کو ضرور ملنے آتے۔ یہ حاضری دینا ان کی مروت اور محبت کی نشانی تھی۔ پھر یہ بھی ہوا کہ نیلام گھر کے عروج پر مجھے نیلام گھر کے ایک پروگرام میں مہمان کے طور پر شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ یوم اقبالؔ کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور میں ہم دو ہی مہمان تھے۔ پی ٹی وی والے غالباً ایک سینئر ادیب کے ساتھ مجھ جیسے کسی ایسے شخص کو بھی رکھنا چاہتے تھے جو ذرا رونق لگا دے اور سامعین کو بور نہ ہونے دے۔ میں اس سے پہلے برسوں ٹی وی پروگرام میں شریک ہوتا رہا تھا، مگر اس دن مجھے غیر معمولی خوشی ہوئی تھی جس کا اظہار اب کر رہا ہوں۔ انہی دنوں طارق عزیز کی شادی ہو گئی۔ ایک اچھی ڈاکٹر حاجرہ سے جو غالباً فیلو شپ کر چکی تھیں، طارق ان دنوں کراچی کی طارق روڈ اور شاہراہ لیاقت کے سنگھ پر آدم آرکیڈ میں رہنے لگے تھے۔ ان کی زندگی میں خاصا نکھار اور سلجھائو آ گیا تھا۔ اسی بلڈنگ میں سہام مرزا کے ڈائجسٹ کا دفتر تھا اور ایک ریسٹوران تھا جس کے سامنے گرین بیلٹ پر عزیز حامد مدنی نے اپنا ٹھکانہ کر لیا تھا۔ شام کو محفل جمتی اور بڑے بڑے ادیبوں کا یہاں سے گزر ہوتا۔ وہ اس سے پہلے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑ چکے تھے۔ وہ ایک سچے سیاسی کارکن کے بیٹے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد عزیز پاکستانی حسین شہید سہروردی کی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ سہروردی جب ساہیوال آئے، انہی کے پاس ٹھہرے۔ سہروردی ان لوگوں میں تھے جو میزبان کی دولت و امارت کی بنیاد پر نہیں پارٹی سے وابستگی کی بنیاد پر جیتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنے میزبان کو مالی بوجھ سے بچانے کے لیے تکیے کے نیچے چپکے سے کچھ رقم رکھ جاتے تھے۔ کیسے وضعدار لوگ تھے۔ بہرحال اس فضا میں پلے ہوئے طارق کے لیے پیپلزپارٹی بڑے خواب لے کر آئی تھی۔ وہ الیکشن ہار گئے، حلقہ انتخاب ہی ایسا تھا۔ غالباً ان دنوں بھٹو دو لوگوں کی شعلہ بیانیوں کی بہت داد دیتے تھے۔ ایک معراج محمد خان اور دوسرے طارق عزیز۔ وہ وقت بھی گزر گیا پھر وہ دن بھی آئے جب طارق عزیز نے مسلم لیگ(ن) جائن کرلی اور ایم این اے منتخب ہوئے۔ اس دوران سپریم کورٹ پر حملے کا واقعہ ہوا جس میں طارق عزیز کا نام بھی آیا۔ پھر طارق نے سیاست ترک کر دی۔ بھلے آدمی کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ مجھے یاد نہیں طارق عزیز کوئی کامیاب فلم میں کردار ادا کر پائے یا نہیں، مگر آج ہی فراست رضوی نے یاد دلایا ہے کہ جب مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان یکجہی کی فضا پیدا کرنے کے لیے ایک فلم بنائی گئی تو اس کا نام ’’قسم اس وقت کی‘‘ تھا۔ اس کے نغمے جوش صاحب نے لکھے۔ سکرپٹ فیض صاحب نے اور اے جے کاردار ڈائریکٹر تھے اور فوٹو گرافر بھی ایک نامور شخص تھے۔ نام یاد نہیں آ رہا۔ اس میں طارق عزیز کو مرکزی کردار کے لیے منتخب کیا گیا۔ یہ بھی بڑی سعادت کی بات تھی۔ وہ اتنے بڑے ناموں والی یہ فلم تو خاص چل نہ پائی۔ ایجنڈے پر بنائی ہوئی فلموں کا یہی حال ہوتا ہے۔ لیکن اس کا تذکرہ بہت رہا۔ بہرحال ایک پاکستانی چل بسا اور دوست ڈاکٹر عبدالقادر نے اس خبر کی اطلاع دیتے ہوئے یوں کہا کہ ساہیوال کی ایک اور نشانی رخصت ہو گئی۔ پھر انہوں نے اس گھر کا اور اس گلی کا پورا نقشہ کھینچا۔ مجھے کیا کچھ یاد آ گیا۔ لگتا ہے۔ اب صرف نشانیاں باقی رہ گئی ہیں اور یادیں۔