سال 1975ء میں ویتنام سے پسپائی کے بعدکہا گیا کہ امریکہ اپنی تمام تر طاقت اور بے پناہ وسائل کے باوجو دعالمی سطح پرکوئی خاطر خواہ ہدف حاصل نہیں کر سکتا۔تاہم سال 1989ء میں جب کمیونسٹ نظام کے انہدام کا آغاز ہوا تو بتایا گیا کہ امریکہ کے پاس اب کرنے کو کچھ بچا نہیں۔ ایک سال بعد جب عراق کو تہہ و تیغ کیا گیا تو اعلان کیا گیا کہ امریکہ دنیا میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کی پچیس تیس سال پہلے لکھی Seize the Moment نامی مختصر سی کتاب کیا ہے، عمدہ انگریزی نثر میںامریکی تکبر کا اظہار ہے۔کمیونزم کی پسپائی کے بعد پوچھا گیا کہ امریکہ کوواپس اپنے’ آئسولیشنسٹ‘ خول میں واپس چلے جانا چاہیئے، تو بتایا گیا ہر گز نہیں، امریکہ کو پہلے سے بڑھ کر’ انٹر نیشنلسٹ‘ رویہ اپنانا چاہیئے۔ سابق امریکی صدر نے زور دے کر کہا کہ جبر اور ظلم کے نظام کو شکست دیئے جانے کے بعد ضرورت ہے کہ باقی دنیا میں بھی جمہوریت اور مغربی آزادی کو فروغ دیا جائے۔ سوویت خطرہ تحلیل ہو جانے کے باوجودنیٹو اتحاد قائم اور 150,000امریکی فوجیوں کی یورپ میں تعیناتی برقرار رکھنے کا استدلال امریکی صدر نے یوں دیا کہ کمیونزم کمزور ہوا ہے مگر روس پر اب بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔نا صرف مشرقی یورپ کی سوویت تسلط سے آزاد ہونے والی ریاستوں بلکہ برلن دیوار کے انہدام کے بعدمتحد ہو نے والے جرمنی پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ امریکی پالیسی سازوں کو مشورہ دیا گیا کہ روس سمیت سوویت یونین سے آزادی پانے والی ریاستوں کے لئے مختص امریکی امداد کو ان ممالک میں مغربی جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے فروغ سے منسلک کیا جائے۔جس دور میں کتاب لکھی گئی لگ بھگ انہی برسوں میںنیو ورلڈ آرڈر کا تصور سامنے آیا۔ ریاست ہائے امریکہ نے نوّے کے عشرے کے دوران دنیا کو اپنے طرز کی’ جمہوریت‘ کے ذریعے بدلنے کا فیصلہ کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ نے دنیاکوکس حد تک بدلا ہے؟ امریکہ نے اپنے آس پڑوس میںجن ریاستوں کی ’آمرانہ حکومتوں‘کو بدلنے کی کوشش کی ، کیا ان ممالک کے عوام پہلے سے بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں؟ دوسری طرف برازیل میںآمریت کا نظام ہونے کے باوجود ملکی معیشت میں چند طاقتور خاندانوں(elite) کا اثر رسوخ بتدریج گھٹاتے ہوئے مالی اداروں کو خود مختار اور inclusive بنایا جاتا رہا تو ملک کے سیاسی ادارے بھی بتدریج مضبوط ہوتے چلے گئے۔ آج برازیل کسی بیرونی مالی و نظریاتی امدادکے بغیر مضبوط جمہوری اور معاشی اداروں کا حاملBRICS کا اہم رُکن ملک ہے ۔ سیمور مارٹن لپسٹ کیTheory of Modernization کے مطابق کسی ریاست میں اس سے قطع نظر کہ کیا طرزِحکومت رائج ہے ، inclusive معاشی اداروں کے ذریعے مضبوط جمہوری اداروں کا قیام بتدریج ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر بش سینئر نے اسی نظرئیے کو مد نظر رکھتے ہوئے ابتدا میں چین کے ساتھ کھلی تجارت کے فروغ کا فیصلہ کیا تھا۔ خیال تھا کہ چین میں آزاد معاشی ادارے ترقی کریں گے تووہاں ایک دن مغربی جمہوری نظام خود بخود قائم ہو جائے گی۔تاہم بعد ازاں اس نظریئے سے ہٹتے ہوئے مخاصمانہ پالیسی کو اختیار کیا گیا۔ چین کو خطے میں محدود کرنے کے لئے سال 1999ء میںبھارت کے ساتھ سٹریٹیجک الائنس پر کام کا آغاز کیا گیا۔ چین کا اثرو رسوخ کس حد تک محدود ہوا ، یہ ایک الگ بحث ہے۔ کیا مودی کا بھارت جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور مذہبی رواداری کے باب میں سال 1999ء کے بھارت سے بہتر ہے؟ صدا م حسین ایک سخت گیر آمر تھا۔کیا عراق میں امریکی مداخلت کے بعد برباد ملک کے عوام آج آمرانہ دور سے بہتر حالت میں جیتے ہیں؟ آمروں کو ہٹا کر عوام کو آزادی عطا کرنے کی خاطر ہی عراق کے بعد شام اور لیبیا کی باری آئی۔ حالیہ تاریخ میںایک قدیم و آباد خطے کوامن، جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے فروغ کے نام پریو ں بے دردی سے برباد کئے جانے کی کیا کوئی اس سے بڑی مثال ملتی ہے؟ اربوں ڈالرز افغانستان میں جھونکے گئے۔نوے کے عشرے میں امریکی آئل کمپنی یونی کیل کی افغانستان کے راستے پائپ لائن اجارہ داری کی جب تک امید قائم رہی، طالبان کے رو یے بھی قابلِ برداشت رہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کی امیددم توڑنے لگی تو ہی افغانستان میں عورتوں سے برے سلوک پر اعتراضات بھی اٹھنے لگے۔حال ہی میں اشرف غنی کی حکومت میں کیا عورتیں اب سے زیادہ آسودہ حال تھیں؟ افغان کٹھ پتلی حکومت کے کارندوں میں کروڑوں ڈالرز جو روزانہ بانٹے جاتے رہے،اب ان بھگوڑوں کے گھروں کے تہہ خانوں سے برآمد ہو رہے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ مگرکہتے ہیں کہ ہم گذشتہ بیس سالوں کے دوران پاکستان کی کارکردگی کاحساب لگائیں گے۔بھوک اور افلاس کے مارے افغانیوں کی امداد کو جمہوری حکومت کے قیام، عورتوں سے سلوک اور مغربی طرز کی آزادیوں سے مشروط کر دیا گیا ہے۔سال 1975ء میں پسپائی کے بعدکم از کم اتنا تو ہوا کہ عالمی معاملات میں امریکی حدودو قیود کا کھلے دل اعتراف کیا گیا تھا۔ سال 2004 ء میں جان میک میلن اور پیبلو زائڈو کی پیرو(Peru) پر ایک کیس سٹڈی میں بتایا گیاکہ ملک کی سپریم کورٹ کے جج کو پانچ سے دس ہزار امریکی ڈالرز ماہانہ کے عوض خریدا جا سکتا تھا۔ ججوں کے مقابلے میں نو سے دس ملین ڈالرز ماہانہ فی اخباریا ٹی وی سٹیشن کو دی جانے والی خطیر رقم سے ، میڈیا کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سال 2004ء میں پاکستانی عوام کی Perception Management کے لئے 1.5بلین ڈالرز سالانہ مختص کئے گئے۔سال2006ء میں بھارتی ایماء پر ایک مربوط عالمی نیٹ ورک کا قیام عمل میں لایا گیا۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے اس نیٹ ورک کاہدف پاکستان کو سویلین بالادستی کے فقدان، میڈیا پر پابندیوں، اقلیتوں اور عورتوں پر زیادتیوں کے حوالے سے بدنام کرنا تھا۔ راتوں رات اب یہی کام افغانستان سے متعلق شروع کر دیا گیا ہے ،جہاں لوگ ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہیں ۔ سال 1648 ء میں ٹریٹی آف ویسٹفیلیا کے تحت قومی ریاستوں کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا تھاکہ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی۔ نتیجے میں 178برسوں پر محیط خونریزی کے خاتمہ اوریورپ کے دورِ عروج کا آغاز ہوا تھا۔کم ازکم پچھلے پچاس سال کی خون ریزی کو سامنے رکھتے ہوئے مطالبہ کیا جا نا چاہیئے کہ کمزور ملکوں کے حقِ خود مختاری کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جمہوریت کے فروغ اور انسانی حقوق کے نام پران ملکوں میں دخل اندازی اور تباہی مسلط کئے جانے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کو اب ایک اور ٹریٹی آف ویسٹفیلیا لکھنے کی ضرورت ہے۔