یہ واقعہ 13جولائی کو ضلع فیصل آباد کے علاقے ڈجکوٹ میں پیش آیا۔ اس کی مختصر سی تفصیل ایک اخبار میں چھپی تھی۔ اس روز بھی اتفاق سے فیصل آباد ہی میں تھا۔ میں اپنی متجسس طبیعت کی وجہ سے اس دلچسپ واقعہ کی مکمل تفصیل جاننا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے خود ڈجکوٹ کے تھانے میں پہنچ کر وہاں کے ایس ایچ او سے ملاقات کی۔ وہ مجھے اخباری بندہ سمجھ کر بڑی عزت سے پیش آیا۔ اس کی زبانی مجھے جن حالات کا پتہ چلا ہے جو ہم نے ایک ڈائیلاگ کی شکل میں لکھ دیئے ہیں۔ یہ ڈائیلاگ ایک مظلوم ڈاکو اور ایس ایچ او کے درمیان ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: سلاما لیکم جناب ہاں‘ کون ہو تم؟ جناب میرا نام شوکا ہے۔ پورا نام بتائو شوکا ڈاکو جناب تم ڈاکو ہو؟ میرا مطلب ہے کیا آپ ڈاکو ہیں؟ جی سر! آپ کھڑے کیوں ہیں؟ تشریف رکھیں۔ (ڈاکو بیٹھ جاتا ہے) ہاں تو شوکا ڈاکو صاحب! میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ پہلے یہ بتائیں آپ گرم چائے پئیں گے یا ٹھنڈا شربت؟ مجھے ٹھنڈا گرم کچھ نہیں چاہیے۔ اس وقت میں خود بہت گرم ہوں۔ اگر آپ میری مدد کر کے مجھے ٹھنڈا کردیں تو مہربانی ہوگی۔ فرمائیے فرمائیے۔ ہم یہاں آپ ہی جیسے لوگوں کی خدمت کے لیے بیٹھے ہیں۔ جانتا ہوں۔ آپ ہمیشہ ڈاکوئوں کی مدد کرتے ہیں۔ مجھے شکایت اپنی ساتھی ڈاکوئوں سے ہے۔ کیوں سر جی؟ کیا کیا ہے آپ کے ساتھی ڈاکوئوں نے آپ کے ساتھ؟ انہوں نے مجھ غریب کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ غضب خدا کا۔ خود ڈاکو ہو کر اپنے ڈاکو بھائی سے فراڈ۔ کیا آپ نے کبھی ایسی اندھیر نگری دیکھی ہے؟ جی نہیں۔ میں زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں کہ ڈاکوئوں نے اپنے ڈاکو بھائی سے فراڈ کیا۔ یعنی اپنے پیٹی بھائی سے۔ آپ ہماری مثال لیں۔ اگر کوئی ہمارا پیٹی بھائی چاہے کتنے ہی سنگین جرم کا ارتکاب کرے ہم اس کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیتے۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک پیٹی بھائی نے ایک لڑکی کو اغوا کرلیا۔ اس لڑکی کا والد‘ چچا اور بھائی شکایت لے کر تھانے آئے۔ میں نے انہیں ایک شریف آدمی پر تہمت لگانے کے جرم میں پکڑ کر اندر کردیا۔ وہ اب بھی حوالات میں ہیں۔ آج صبح اس لڑکی کا ماموں آیا تھا۔ کہنے لگا‘ ہماری لڑکی گئی جہنم میں۔ آپ براہ مہربانی ہمارے بندوں کو چھوڑ دیں۔ تو چھوڑ دیں نہ آپ انہیں۔ ڈاکو نے سفارش کی۔ کیسے چھوڑ دوں‘ جب تک وہ حوالات کا کرایہ اور کھانے کا بل نہ ادا کریں۔ میں انہیں کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ اگر میں نے ان سے واجبات وصول کئے بغیر چھوڑ دیا تو ایس پی صاحب مجھے معطل کردیں گے۔ بہت خوب تھانیدار صاحب‘ بہت خوب۔ تھانے کا تھانہ ہوٹل کا ہوٹل۔ آپ تو ہم ڈاکوئوں سے بھی آگے نکل گئے۔ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ جناب۔ ہم تو ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بہرحال چھوڑیں اس بات کو۔ آپ اپنی بات کریں۔ کیا فراڈ کیا ہے آپ کے پیٹی بھائیوں نے آپ کے ساتھ؟ فراڈ فراڈ۔ آپ تفصیل سنیں گے تو دنگ رہ جائیں گے۔ میں تو تفصیل سنے بغیر ہی دنگ رہ گیا ہوں۔ خیر‘ آپ فرمائیں ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ 13 جولائی کی رات کو ہم تلاش روزگار کے سلسلے میں سمندری روڈ پر نکہ لگا کر بیٹھ گئے۔ ہمارا ناکہ آپ کے ناکے سے ذرا مختلف ہوتا ہے۔ آپ کا ناکہ تو دور سے نظر آ جاتا ہے جسے دیکھتے ہی جرائم پیشہ لوگ ادھر ادھر ہو جاتے ہیں لیکن عام شہری انجانے میں پھنس جاتے ہیں۔ ہمارے ناکے کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ ہم کہیں آس پاس چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جونہی کوئی ہمارا ہونے والا شکار وہاں سے گزرنے لگتا ہے ہم آناً فاناً بڑھ کر اسے قابو کرلیتے ہیں۔ ویسے آپ میں اور ہم میں ایک بات مشترک ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کو آپ کچھ کہتے ہیں نہ ہم۔ دونوں کے ہتھے عام لوگ ہی چڑھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا اور آپ کا طریقہ واردات تقریباً ایک جیسا ہے۔ آپ نے ہمیں اپنے ساتھ ملا کر ہمارا رتبہ نہایت بلند کردیا ہے۔ میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ کے کتنے منہ ہیں؟ ہی ہی ہی۔ آپ مذاق بہت خوب کرلیتے ہیں۔ اچھا تو یہ بتائیے آپ کے ڈاکو بھائیوں نے آپ کے ساتھ کیا فراڈ کیا؟ جی میں عرض کرتا ہوں۔ اس روز سمندری روڈ والے ناکے سے ہمیں یہ آمدنی ہوئی‘ بائیس ہزار روپے نقدی‘ دوطلائی کانٹے اور ایک انگوٹھی‘ تین کلو دیسی گھی‘ ایک موٹرسائیکل پانچ موبائل فون۔ ایک آئی فون ایک پتلون۔ پتون؟ وہ کیسے؟ ریڈی میڈ پتلون تھی جی زیرو میٹر۔ ایک لڑکے نے موٹرسائیکل کے ساتھ لٹکا رکھی تھی۔ ٹھیک ہے۔ پھر کیا ہوا؟ پھر یہ ہوا کہ جب مال غنیمت تقسیم کرنے کا وقت آیا تو ان کے دل میں بے ایمانی آ گئی اور انہوں نے میرا جائز حصہ یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا تم نے تو آپریشن کے دوران کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ بس ایک طرف بیٹھے سگریٹ پیتے رہے تھے۔ حالانکہ میں آپریشن کی نگرانی کررہا تھا۔ میں نے اپنا حصہ لینے پر اصرار کیا تو انہوں نے مجھے دھکے مار کربھگا دیا۔ آپ سے گزارش ہے کہ میرے ساتھیوں کوگرفتار کر کے ان سے میرا حق دلوائیں۔ دیکھیں شوکا صاحب۔ ہم ڈاکو حضرات کے خلاف کارروائی کرنے کے مجاز نہیں ہے۔ ہمیں زبانی آرڈرز ہیں کہ کسی ڈاکو کے خلاف قطعاً کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ آپ لوگ آپس میں کوئی تصفیہ کرلیں۔ ہمارے لیے آپ اور وہ برابر ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ مجھے انصاف نہیں دلا سکتے۔ معافی چاہتا ہوں۔ میں مجبور ہوں۔ لگتا ہے مجھے مجبوراً NAB میں شکایت کرنی پڑے گی۔ (یہ سن کر SHO صاحب نے ایک فلگ شگاف قہقہہ لگایا) آپ سے کس بے وقوف نے کہہ دیا کہ NAB ڈاکوئوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ نیب تو ڈاکوئوں کا ہم سے بھی زیادہ خیال کرتا ہے۔