اس محبت نے تمہیں کیسے ثمر بار کیا میں کہ خود اپنا نہیں اور تمہارے سارے میں نے یہ شعر عطاء الحق قاسمی کے لئے لکھا ہے کہ میں نے انہیں ڈھیر سارے مداحوں میں گھرے ہوئے دیکھا۔ اکثر برے دنوں میں لوگ آپ کو چھوڑ جاتے ہیں اور ایسا کرنے والے یقینا برے لوگ ہوتے ہیں۔ میں تو خیر ان کا ایک مدت سے مداح ہوں‘ اس کے باوجود کہ مزاج میں میرے گستاخی ہے کہ زہر کو قند نہیں کہا جاتا، مگر پھول تو اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے۔ مجھے تو رات کی رانی کی مہک زنجیر ڈال دیتی ہے۔ آپ عطاء الحق قاسمی سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں مگر وہ ’’آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں‘‘ بس بات برائے بات نہیں کر رہا کہ میں نے تو اپنا اولین کالموں کا مجموعہ انہی کے نام کیا تھا کہ اتنا ورسٹائل کالم نگار کون ہو گا کہ جو لکھے وہ ادب پارہ بھی ٹھہرے۔ مجھے تو ان کی نعت کا ایک شعر مہکائے رکھتا ہے ؎ تونے تو کچھ بھی دیکھنے نہ دیا اے مری چشم تِر مدینے میں مجھے ایک واجب ادا کرنا ہے کہ مجھے اس شاندار تقریب میں شرکت کرنا تھی۔ جو قمر ریاض نے عطاء الحق قاسمی ادب و صحافت ایوارڈ 2019ء کے سلسلہ میں منعقد کی تھی اور ساتھ ہی اس کے مشاعرہ بھی تھا مگر افسوس میں اس دو آتشہ محفل میں نہ جا سکا۔ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات آپ شدید خواہش کے باوجود نہیں جا پاتے حالانکہ قمر ریاض نے تو سٹیج پر میری کرسی رکھی تھی۔ اس نوجوان کے پاس کوئی ’’گدڑ سنگی‘‘ ہے کہ وہ سارے شہر کی کریم اکٹھی کر لیتا ہے’’ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا‘‘ اس نے عطا صاحب کو مرشد مانا ہے تو پھر مانا ہے۔ اس نے عطاء صاحب pictorial bookتصویری کتاب شائع کی تو دنیا کو حیران کر دیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عطا صاحب کی اپنی ایک حیثیت اور کشش ہے۔ وہ دوسروں کو عزت دینا جانتے ہیں۔ میں تو پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ان کے ہوتے ہوئے جو ادبی محافل اور کانفرنسیں ہوتی ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے انتظار حسین ‘ عبداللہ حسین اور ڈاکٹر سلیم اختر کو زندگی ہی میں ان کے شایان شان خراج عقیدت پیش کیا۔ کل مجھے کسی نے پوسٹ میں لکھا کہ شاہ صاحب آپ عطا الحق قاسمی کو پروجیکٹ کر رہے ہیں میں نے کہا میرے دوست یہ تو آپ نے الٹ بات لکھ دی ان کی وجہ سے ہماری عزت ہے وہ ادب میں لیجنڈ ہیں۔ منفی پراپیگنڈا بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ حالیہ تقریب میں دنیا نے دیکھا کہ سب نامور ادیب ان کی تقریب میں بیٹھے تھے اور یہ ایک یادگار تقریب تھی۔اقتدار جاوید نے لکھا کہ قمر ریاض نے ایسے ایسے لوگوں کو بھی بلایا ہوا تھا جن سے دوری باعث ثواب ہے۔ انہوں نے قمر کے لئے اقبال کا شعر تبدیلی کے ساتھ لکھا: یہ کل بھی اس گلستان خزاں منظر میں ہے ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں ہے اس تقریب کی صدارت عطاء الحق قاسمی نے کی۔ مہمانان خصوصی وہی تھے جن کو ایوارڈ دیا گیا۔ یعنی ظفر اقبال اسد محمد خان اور رحمن فارس۔ مہمان اعزاز میں چودھری محمد اسلم اور محمود صادق تھے۔ اور لگتے ہاتھ مہمانان خاص کے نام بھی لکھ دوں۔ نجیب احمد‘ خالد شریف‘ عباس تابش‘ سلمان گیلانی‘ یوسف خالد‘ ڈاکٹر صغریٰ صدف‘ ناصر علی سید اور احمد عطاء اللہ ۔ میرے پیارے قارئین مہمانان اعزاز میں چند نام اور دیکھ لیں۔ حمیدہ شاہیں ‘ منصور آفاق‘ قمر رضا شہزاد‘ سعداللہ شاہ‘ اقتدار جاوید‘ واجد امیر‘ صوفیہ بیدار ۔ قمر ریاض نے درست کہا کہ عطاء الحق قاسمی نے جناب احمد ندیم قاسمی کی سی روش پر چل کر ادیبوں اور شاعروں کا ایک جہان آباد کر رکھا ہے انہوں نے ادب کا ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ بڑے بڑے ادیبوں کا اس راستے پر سانس اکھڑ گیا جن کے لئے انہوں نے بہت کچھ کیا وہ مشکل وقت میں ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ میں نے ایک لمحے کے لئے ضرور سوچا کہ ہم تو ن لیگ کے دور میں ویسے ہی ٹی وی پر بین تھے مگر عطا صاحب کی عظمت کے ہم ہمیشہ قائل رہے۔ انہوں نے بتایا کہ عطاء الحق قاسمی اردو ادب اور صحافت ایوارڈ چار شعبوں میں ہر سال دیے جائیں گے۔ پہلا ’’حاصل زندگی ایوارڈ‘‘ باقی شاعری ‘ صحافت اور فکشن پر انعام دینے والی جیوری میں‘ مسعود اشعر ‘ اصغر ندیم سید‘ وجاہت مسعود‘ ڈاکٹر نجیب جمال‘ عباس تابش اور نوید چودھری شامل ہیں۔ یہ ایوارڈ 50سال سے کم عمر لکھاریوں کو دیے جائیں گے یعنی یہ سب نوجوان 50سال سے کم ہونگے۔ اس سے ایک بات یہ کہ نوجوانوں کو کتاب لکھنے اور شائع کرنے کی ترغیب ملے گی۔ لاہور کی اس لائبریری آڈیٹوریم میں یہ تقریب 16اپریل کو ہوئی۔ یعنی پہلے عطاء الحق قاسمی ایوارڈ کا اجرا‘ پہلا ایوارڈ شاعری اور ادب میں بے مثال تخلیقی کام کرنے والے عہد حاضر کے بہت بڑے شاعر ظفر اقبال کو پیش کیا گیا اور اس ایوارڈ ملنے پر ظفر اقبال نے کہا کہ واقعتاً یہ ایوارڈ بہت اہم ہے کہ انہیں دیا گیا ہے اس میں شک بھی نہیں کہ ایوارڈ کی اہمیت بھی سچے اوریجنل ادیبوں سے بنتی ہے۔ گویا ظفر اقبال کا مذاق سے کہنا در حقیقت سچ تھا: یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا دوسرا حاصل زندگی ایوارڈ بہت بڑے افسانہ نگار اور ناول نگار اسد محمد خاں کو پیش کیا گیا۔ ان کا اس عمر میں کراچی سے چلے آنا بہت پسند کیا گیا۔ بہترین کالم نگار کا ایوارڈ جاوید چودھری کو دیا گیا۔ وہ اس محفل میں نہیں آ سکے۔ مگر انہوں نے کلپ بھیجا کہ انہیں زندگی میںجتنے بھی ایوارڈ ملے ان میں سب سے اچھا ایوارڈ عطاء الحق قاسمی کے نام سے ہے۔ چوتھا اور اہم ایوارڈ ہمارے خوبصورت شاعر رحمن فارس کو دیا گیا۔ وہ بہت طرحدار شعر کہتاہے۔ خوبصورت شاعر کا خوبصورت شعر کہنا سونے پر سہاگے والی بات ہے۔ اس کے دو شعر دیکھیں: نقش و نمود و نام کو اللہ پہ چھوڑ دے بس شعر کہہ دوام کو اللہ پہ چھوڑ دے ایسے نحیف شخص کی طاقت سے خوف کھا جو اپنے انتقام کو اللہ پہ چھوڑ دے ہاں یہ تو میں بتانا ہی بھول گیا کہ اس تقریب کی میزبانی قمر ریاض اور باکمال مزاح نگار گل نوخیز اختر نے کی۔ ملک کے نامور شاعر اور نعت گو سرور حسین نقش بندی نے نعت پڑھی بھرے ہوئے آڈیٹوریم سے عطاء الحق قاسمی نے اظہار خیال کیا اور لوگوں کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا۔ آخر میں چند شعرا کے نام بھی ہو جائیں کہ کہیں وہ مجھ سے ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ شکیل جاذب‘ سجاد بلوچ‘ عنبرین صلاح الدین‘ افضل عاجز‘ ثاقب تبسم ثاقب‘ توقیر ‘ وسیم عباس‘ کنور امتیاز‘ ممتاز راشد لاہوری‘ اعجاز ثاقب‘ پتہ چلا کہ سلمان گیلانی نے مشاعرہ لوٹا۔ اختتام تو قمر ریاض کے شعر پر کروں گا: اپنے پرکھوں کی یہ جاگیر نہیں دے سکتے ہم کسی حال میں کشمیر نہیں دے سکتے