پہلے بھی لکھ چکا ہوں ۔ ۔ ۔ کہ بدقسمتی سے ہمارے سابقہ حکمرانوں نے افغان جنگ کے دوران ریاستی سرپرستی میں ایسی ملٹنٹ تنظیموں کو بھی ڈیورنڈلائن کے اس طرف اور اُس طرف آنے جانے اور مالی و عسکری وسائل سے قومی سلامتی کے نام پر لیس ہونے کی ایسی کھلی چھوٹ دی۔ ۔ ۔ کہ پھر بعد کے برسوں میں یہ خود مملکت پاکستان پر طالبانائزیشن کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لئے ہمارے ہی عوام اور فوجی جوانوں پر چڑھ دوڑے ۔۔ ۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’’افغانستان‘‘ کو اُس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا مگر، ایک طرف چند مہم جو ناعاقبت اندیش افسر القاعدہ اور طالبان قیادت کے سحر میں گرفتار ہوگئے ،تو دوسری جانب اُس وقت کی ہماری اپنی دینی و مذہبی جماعتوں کی قیادت نے بھی افغان جہادی تنظیموں سے ’’بہناپہ‘‘ جوڑ لیا، ’’کابل‘‘ کے تخت پر کون بیٹھے گا۔اس کا فیصلہ’’ اسلام آباد‘‘ میں ہونے لگا ۔ جس کے نتیجے میں افغان جہادی تنظیموں کے درمیان جوخانہ جنگی ہوئی ۔ ۔ ۔ اس میں مستند دعوے کے مطابق غریب افغانوں کی ہلاک ہونے والوںکی تعداد روسی جنگ میں شہید ہونے والے افغانوں سے زیادہ تھی۔ بیس برس تو ہونے کو آرہے ہیں۔مگر آج بھی ’’کابل‘‘ میں بیٹھی حکومت ایک ’’میئر‘‘ سے زیادہ بھی بااختیار نہیں ۔بات اگر ڈیورنڈ لائن کے اُس طرف تک رہتی تو بھی درگذر کی جاسکتی تھی مگر القاعدہ اور طالبان کے بطن سے جنم لینے والے لشکر ،سپاہ ، حزب اور حرکت کے جنگجو جب افغان جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان لوٹے تو یہ بے پناہ مالی اور عسکری وسائل سے تو مالا مال تھے ہی مگر ان کے ساتھ جنگی جنونیوں کی ایک ایسی فوج بھی تھی کہ جس کے سر میں یہ سودا سما دیا گیا تھاکہ ’’کابل‘‘ کی فتح کے بعدان کی منزل’’ اسلام آباد‘‘ کا تخت ہی نہیں بلکہ ’’دلی ‘‘ ،واشنگٹن پر بھی اپنے جہادی پرچم لہرانا تھا۔اکتوبر 1999میں جب میاں نواز شریف کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشر ف اقتدار میں آئے تو آرمی سربراہ اور پھر اُس سے قبل ایک کور کمانڈر کی حیثیت سے بھی ’’افغان جنگ‘‘ میں بڑا کلیدی کردار تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد جب اسلام آباد میں وہ صحافیوں کے منتخب گروپ کو کھانے پر طویل گفت و شنید کے لئے بلاتے تو بے تکلفانہ گفتگو میں اعتراف کرتے کہ ڈیورنڈ لائن کی طرف آنے جانے والے عسکری جتھے ہمارے قابو میں نہیں۔ ان کے براہ راست ڈانڈے ’’جدہ‘‘ اور واشنگٹن سے ملے ہوئے ہیں۔مگر جب جنرل صاحب کی توجہ حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر لشکر و سپاہوں کی جانب دلائی جاتی کہ جس میں ان کے نائبین دینی جذبات سے سرشاراپنی وردی اور پاکستان سے وفاداری تک کا پاس نہیں کر رہے تھے ۔ تو عادت کے مطابق اُن کے چہرے پر شکنیں ہی نہیں پڑیں بلکہ معمول سے اُن کی آواز اونچی بھی ہوگئی۔9/11کے بعد یقینا جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو جویو ٹرن لینا پڑا وہ اُن کی مجبوری بھی تھی اور ملک و قوم کی سلامتی بھی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ مشرف دور کے ایک جنرل نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک سربراہ جہاز بھر کے اپنے جوانوں کو’’ رائے ونڈ‘‘ لے جایا کرتے تھے اور پھر آئی ایس آئی کے سربراہان جنرل اختر الرحمان ،جنرل حمید گل اور بریگیڈیئر محمد یوسف کے کیا کہنے کہ ریٹائر ڈ ہونے کے بعد باقاعدہ اپنی تحریروں کا ایک ایسا ڈھیر لگا گئے کہ جسے بعد میں حوالے کے لئے پڑوسی دشمن ملک بھارت سمیت مخالفین نے استعمال کیا۔’’ممبئی‘‘ دھماکے کا ملبہ جس طرح پاکستان پر گرا۔اُس میں ہمیں دفاعی موقف اختیار کرنا پڑا ۔ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور جیش محمدکے بانی مولانا مسعود اظہر پر بھارت کی دشنام طرازی کی تو اتنی اہمیت نہیں کہ بھارت میں ایک ’’پٹاخہ‘‘ بھی ہماری ریاستی ایجنسیوں پر ڈال دیا جاتاہے ۔ واشنگٹن کی جانب سے ان کی نشاندہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم دال میں سے کالا نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔سالِ گذشتہ وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں جو واشنگٹن ٹائمز جیسے معتبر اخبار میں شائع ہواتھا۔ واضح طور پر ایسی تین طرح کی ملیٹنٹ تنظیموں کی نام بہ نام تفصیل دی گئی جو افغانستان اور پاکستان کے اندر کھلی دہشت گردی اور خود کش حملوں میںملوث ہیں۔وہائٹ ہاؤس کے اعلامیے میں حقانی نیٹ ورک کو سر فہرست بتایا گیا تھا جو اُن کے مطابق فاٹا سمیت قبائلی علاقوں میں safe haven ہے۔حرکت المجاہدین کے بارے میں الزام لگایا گیا تھا کہ اس کا ہیڈ کوارٹر پاکستان میں ہے ا ور یہ القاعدہ کا با قاعدہ پاکستانی ونگ ہے۔وہائٹ ہاؤس کی جاری کردہ فہرست میں جند اللہ ،لشکر ِ جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے بارے میں بھی الزام لگایا گیا کہ ان کی قیادت کی پاکستان میں پناہ گاہیں موجود ہیں۔ لشکر طیبہ کے بارے میں وہائٹ ہاؤس اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پورے ساؤتھ ایشیا ء میں یہ سب سے زیادہ منظم دہشت گرد تنظیم ہے۔خاص طور پر حافظ سعید کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’مریدکے‘‘اُن کا ہیڈ کوارٹر ہے جہاں سے وہ ’’کشمیر‘‘ اور ’’کابل‘‘ میں لڑنے والوں کے سخت گیر آپریٹر ہیں۔ حافظ سعید کے بارے میں ہماری ماضی کی طرح،موجودہ حکومت بھی یہ واضح کرچکی ہے کہ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی ہے اور وہ گھر میں نظر بند ہیں۔ہماری آزاد عدالتیں بھی انہیں ضمانت پر بری کرچکی ہیں۔تاہم وہ ملک کی دیگر تنظیموں کی طرح اپنی فلاحی و سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جس پر پابندی لگانے کی حکومت مجاز نہیں ہے۔وہائٹ ہاؤس کے اعلامیہ میں جیش محمد اور اُس کے بانی مولانا مسعود اظہر کا ذکر اس لئے تشویشناک ہے کہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں سب سے متحرک گروپ بتایا گیا ہے۔جیش محمد کے خلاف وہائٹ ہاؤس کا کیس اس لئے بھی مضبوط بن گیا ہے کہ سابق صدر (ر)جنرل پرویز مشرف نے اپنی یادداشتوں میں بھی اس تنظیم کے بارے میں لکھا ہے ،جس کا ذکر اگلے کالم میں آئے گا ۔(جاری ہے)