بحر رجز میں ہوں نہ میں بحر رمل میں ہوں میں تو کسی کی یاد کے مشکل عمل میں ہوں کہتا تو وہ بھی ٹھیک تھا اک پل کو ہم ملے لیکن میں آج تک بھی اسی ایک پل میں ہوں میرے ذھن میں ’’من نہ دانم فاعلاتن فاعلات بھی تھا اور وہ مشہور مصرع بھی کہ بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے اس اعتراض کے جواب میں جو شعر آیا وہ زبان زدعام ہوا’ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے‘۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مصرع ہوا اور وہ اٹھا لیا گیا۔آپ کو جرات کا واقعہ تو معلوم ہی ہو گا کہ اس نے انشاء اللہ خاں انشا کو بتایا کہ غصب کا مصرع ہوا ہے بتائوں گا تو تم لے اڑو گے۔انشا نے کہا نہیں نہیں۔ تم سنائو یہ ذھن میں رہے کہ جرات نابینا تھے جرات نے مصرع پڑھا اس زلف پہ پھبتی شب دیجورکی سوجھی۔انشا نے کھٹاک سے دوسرا مصرع جڑ دیا۔اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی: غزل میں نے چھڑی مجھے ساز دینا ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا آج میں نے ایک نئی طرز پر کالم آغاز کیا ہے کہ سیاست وغیرہ پر لکھ لکھ کر ایک یکسانیت محسوس ہونے لگی تھی اور سوچا کہ آج موتی مٹی میں نہ رولے جائیں۔ بڑی ہی دلچسپ بات ہوئی کہ میرے گھر میں رنگ روغن کرنے والا بشیر احمد سامان میں میری کتب کو دیکھ کر آنکھوں میں چمک لاتے ہوئے آہستہ سے کہنے لگا سر میں نے بھی شاعری کر رکھی ہے شروع میں پینٹنگ کا شوق تھا گائوں میں وسائل نہیں پھر فلموں کا شوق شہر میں لے آیا۔روزگار کے لئے رنگ سازی سیکھی اور پھر سب کچھ پیچھے رہ گیا تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔میں نے دلچسپی سے اس کی باتیں سنیں اس نے اپنا ایک شعر سنایا اور پوچھا میں نے اس کا پہلا مصرع درست کر کے گرہ لگا دی تووہ نہال ہو گیا شعر یوں بن گیا: کتنا اچھا تھا کہ اوقات میں رہتے اپنی آسماں چھوتے ہوئے خاک پڑی ہے سر پر میرا وطیرہ رہا ہے کہ اگر کسی نے پوچھا تو بتا دیا۔اصلاح مانگی تو کوشش کر کے درستگی کر دی مگر شاگرد کسی کو نہیں بنایا کوئی محبت سے دعویٰ کرے تو بات الگ ہے۔ایک مرتبہ معروف گلوکارہ شمسہ کنول نے کہا کہ آپ سے اصلاح سخن چاہتی ہوں میں نے صاف کہہ دیا تو پھر میں خود ناقابل اصلاح ہو جائوں گا۔یہ تو تفنن طبع تھی اس کا شعری مجموعہ بھی آیا تھا۔ کوئی نوجوان پوچھے تو اچھا لگتا ہے کہ اس میں سیکھنے کی لگن ہوتی ہے۔میں کبھی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتا جو آتا ہے بتا دیتا ہوں۔مجھے پاک ٹی ہائوس کا ایک واقعہ آج بھی یاد ہے کہ ایک شاعر جو کہ تخلص گل کرتا تھا ہماری منڈلی کے پاس آیا اور کہنے لگا شاہ صاحب ایک مصرع پہ گرہ نہیں لگ رہی بہت کوشش کی کام نہیں بنا۔شاعر تھا اور اس کی سچی طلب تھی کہنے لگا کہ مصرع ہے چاٹتا پھرتا ہوں مٹی کب سے۔میں نے برجستہ کہا۔اب بھی کھیتوں میں نہ بادل آئے ۔وہ سچ مچ ناچنے لگا سب شاعر اس کی یہ حرکت دیکھتے رہے۔ یہ شاعری واقعتاً پاگل پن تک پہنچ جاتی ہے۔ مجھے یہاں شہزاد احمد یاد آئے کہ مصرع لگانے میں ان کا جواب نہیں تھا۔خاص طور پر جب ہم لوگ مشاعروں میں جاتے تھے تو اکثر کوچ کے اندر بیٹھے شعرا کوئی مصرع لے کر گرہیں لگائے جاتے تھے بڑا لطف آتا تھا۔بعض اوقات مصرع ذرا ڈگر سے ہٹا ہوا ہوتا تو پھر شاعر کی شامت آ جاتی۔مثلاً مجھے عبدالحمید عدم کے بیٹے خالد عدم کا ایک مصرع یاد ہے جو خاصہ آڈ یعنی مختلف تھا یہی اپنا نچوڑ زندگی ہے شہزاد احمد نے مصرع فکس کیا: نہ پکڑے ہے نہ چھوڑے زندگی ہے یہی اپنا نچوڑے زندگی ہے پھر تو بہت کچھ باندھا گیا حتیٰ کہ پکوڑے زندگی ہے۔ایک گرہ مجھے اور یاد آ رہی ہے جو حسرت موہانی کے طرح مصرع پر تھی اور اس پر خالد احمد کے کہنے پر ہر شاعر نے غزل کہی اور ظاہر طرح پر گرہ تو دیکھی جاتی ہے اس میں ایک گرہ ذرا دیکھے: شبنم نے کام کر دیا جلتی پہ تیل کا دہکا ہوا آتش گل سے چمن تمام یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مزیدار لمحات میں شریک کیا جائے اور نوجوان لکھنے والے سیکھیں گے۔یہ گرہ لگانا اور مصرع اٹھانا شاعری میں چلتا ہے۔آپ کو گلزار کی فلم غالب یاد ہو گی کہ جب غالب نے بہادر شاہ ظفر کی صدارت میں اور بادشاہ کے استاد ابراہم ذوق کی موجودگی میں مصرع پڑھا تھا نقش فریادی ہے کس کی شومئی تحریر کا تو سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔غالب نے کہا کہ مصرع اٹھائیے تو کسی نے طنزاً کہا مصرع بہت وزنی ہے۔پھر ایک دوسرے مشاعرہ میں غالب نے ایک ایسا شعر پڑھا کہ خود ابراہم ذوق نے مصرع اٹھایا اور سب شاگرد سنگت میں واہ واہ کر اٹھے۔وہ شعر ہی ایسا تھا: رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے مصرع اٹھانے کا ایک دلچسپ واقعہ مجھے چراغ حسن حسرت کا یاد آ گیا۔وہ کراچی گئے تو ایک مشاعرہ کی صدارت کی ،یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ کراچی والوں کی لاہور والوں سے ایک عصری چپقلش ہے ایسے ہی جیسے کرکٹ میں ہے۔اس مشاعرے میں کسی شاعر نے چراغ حسن حسرت کو مخاطب کر کے کہا حضور مصرع اٹھائیے حسرت صاحب نے بے ساختہ کہا، جی جی کیوں نہیں عمر گزر گئی ہماری مردے اٹھاتے۔ تو میرے پیارے قارئین!یہ ہیں کچھ ادب کی باتیں امید ہے آپ محظوظ ہوئے ہونگے۔اچانک مجھے ابوظہبی کا مشاعرہ بھی یاد آ گیا کہ ہمارے ایک شاعر نے جو کہ بھارت سے آئے تھے بار بار ایک مصرع دہرایا۔خشک ندی میں ڈوبے کیوں اس پر ہم نے گرہ لگا دی کہ گیلے ہو کر نکلے کیوں۔ایک مصرع روحی کنجاہی کا ایسا تھا کہ جس پر شاعر نے گرہ لگا کر دیکھی تو لگ گئی اس مصرع پر کالم بھی لکھے گئے وہ ان کے مندرجہ ذیل شعر کا مصرع ثانی تھا: خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی