جولائی دوہزار اَٹھارہ میں، عام انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کے وزیرِ اعظم بنتے ہی سیاسی وسماجی سطح پر تین طرح کے تاثرات پائے گئے تھے ۔ اول: یہ الیکٹ ایبلزکی بدولت وزیرِ اعظم بنے ہیں۔دوم:پی ٹی آئی ،کی جیت دھاندلی سے ممکن ہوئی ہے ۔ سوم : انتخابات کا نتیجہ ’’ عوام کی آواز ‘‘ تھا۔ ہر عام انتخابات کے بعدجیتنے والی پارٹی اور منتخب وزیرِ اعظم کے بارے ،اسی نوع کے تاثرات پائے جاتے رہے ہیں۔سماجی و سیاسی سطح پر اس نکتے کو سمجھے بغیر کہ جملہ فیکٹرز کے باوجودانتخابات کے نتائج ’’عوام کی آواز‘‘ ہی ہوتے ہیں ، ہمیشہ دیگر تاثرات ہی تقویت پاتے رہے ہیں۔’’عوام کی آواز‘‘کا تاثر پنپنے سے قاصر کیوں رہا؟یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس تاثر کو منتخب وزیرِ اعظم ہی اپنی کارکردگی سے حقیقت ٹھہراسکتے ہیں۔اگر یہ تاثر تقویت نہ پاسکے تو پھر دوسرے تاثرات حقیقت کا رُوپ دھار کر وزیرِ اعظم کو کٹھ پتلی بنا کر رکھ دیتے ہیں ۔ عمران خان کی حکومت کو لگ بھگ ڈیڑھ برس ہونے پر ،اسلام آباد کے سیاسی و سماجی حلقوں میں’’عوام کی آواز‘‘کا تاثر ماندپڑرہا ہے ۔اس کی واضح وجہ کارکردگی کا فقدان ہے۔لیکن منتخب وزیرِ اعظم کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر انتخابی نتائج کو داغدار نہیں بنایا جاسکتا۔عام انتخابات کی تاریخ کے طالبِ علم کی حیثیت سے میراماننا ہے کہ تمام تر بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کے ،انتخابی نتائج ’’عوام کی آواز‘‘پرمبنی ہوتے ہیں۔ اُنیس سوپچاسی کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر تھے،یہ ضیاء الحق نے کروائے تھے۔ پچاسی کے بعداَٹھاسی میں جونیجو کی حکومت ختم ہوئی ،اَٹھاسی کے انتخابات میں ،پیپلزپارٹی کے خلاف ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ قائم ہوتاہے اور پی پی پی کے خلاف تمام پروپیگنڈہ کے باوجودسیاسی جماعتوں کا اتحاد ،عوام کی آواز نہیں بن پاتا۔اُنیس سواَٹھاسی سے نوے کے دوران پیپلزپارٹی اور اپوزیشن میں محاذآرائی کا بازار گرم رہا ،جو نوے میں پہنچ کر شدت اختیار کرگیا ۔یہ سیاسی محاذآرائی مرکز اور پنجاب کے درمیان زیادہ تر رہی۔چھ اگست اُنیس سونوے ، غلام اسحق خان اَٹھاون ٹوبی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ،قومی اسمبلی تحلیل کردیتے ہیں۔بے نظیربھٹو’’ عوام کی آواز ‘‘کے تاثر کو سنبھال نہ سکی۔ نوے کے انتخابات میں پی پی پی ،ایک اتحاد ،پی ڈی اے کی صورت میدان میں اُتری۔مگر بے نظیر کے ساتھ عوام کی آواز ہم آہنگ نہ ہوسکی اور میاں نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے۔نواز شریف کی حکومت زیادہ عرصہ چل نہ سکی۔ماہِ فروری ترانوے میں صدر اور وزیرِ اعظم کے مابین تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں،میاں نواز شریف آٹھویں ترمیم ختم کرنا چاہتے تھے، غلام اسحق خان آڑے آگئے،دونوں کے اختلافات نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔ نواز شریف اپنے انتخاب کو دُرست ثابت کرنے سے قاصر رہے۔اُنیس سوترانوے کے الیکشن میں بے نظیر کوعوام کی آواز ایک بارپھر میسر آجاتی ہے ۔ لیکن یہ آوازاُنیس سوچھیانوے میں مدھم پڑجاتی ہے،اُن کی پارٹی کے صدر فاروق لغاری، بے نظیر کے اقتدار کا خاتمہ اپنے صدارتی اختیار کی بدولت کر دیتے ہیں۔اُنیس سوستانوے کے انتخابات نواز شریف کی سیاسی زندگی کا پہلا موقع بنتے ہیں ،جب بھرپورطریقے سے عوام کی آواز اُن کی آواز بن جاتی ہے۔مگر اُن سے دوسری باربھی یہ آواز سنبھالی نہ گئی ۔ نوے کی دہائی کی سیاست میں انتقام کا عنصر اپنی انتہاکو پہنچ گیا۔یہ بے نظیر اور آصف زرداری کو نشانے پر رکھتے ہیں تو فوج کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔یہ اقتدار کی طاقت کے نشے میں عدلیہ پر بھی چڑھ دوڑتے ہیں۔چیف جسٹس اور صدر کو چلتا کر کے ، آرمی چیف کی طرف رُخ کرتے ہیں۔مگر پرویز مشرف یہ وار خطا کر دیتے ہیں۔اُنیس سوچھیانوے میں جب دونوں جماعتیں باہم دست وگریبان ہوتی ہیں،نئی سیاسی جماعت ’’پاکستان تحریکِ انصاف ‘‘کی بنیاد پڑتی ہے۔ ستانوے کے الیکشن کے بعدبے نظیر بھٹو خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتی ہے،دوہزار سات میں واپس آتی ہے اور ستائیس دسمبر کو سانحہ کا شکار ہوجاتی ہے۔پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد میاں نواز شریف خاندان سمیت سعودی عرب کا رُخ کرتے ہیں، دوہزار سات میں واپس آتے ہیں۔اَٹھاسی سے ستانوے تک سیاسی لڑائیوں میں عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز نہیں رہتی۔بعدازاں نائین الیون کا واقعہ رُونما ہوتا ہے ، دہشت گردی کی جنگ ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔بم دھما کوں سے سماجی سطح پر پیداہونے والے خوف سے زندگی سمٹ کر رہ جاتی ہے، دہشت گردی ثقافتی سرگرمیوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے،سماجی سطح پر جو اُبھار،نوے کی دہائی میں سیاسی عدم استحکام کی بدولت پیداہواتھا،یہاں پہنچ کر تقویت پکڑ لیتا ہے ،مستزاد توانائی کا بحران روزگار چھین لیتا ہے ،گر م موسم کے شب وروز میں طویل لوڈشیڈنگ ،لوگوں کے مزاج میںغصہ بھر دیتی ہے۔مزید، بے نظیر اور میاں نواز شریف کا ملک سے طویل عرصہ باہر رہنا ،عوام کے اندر اُن کے شخصی تصور کو ماند کردیتا ہے۔اسی اثناء میں دوہزارگیارہ آن پہنچتا ہے،عمران خان کے لاہور جلسہ میں ملک بھر سے نوجوان آتے ہیں ۔ سماجی سطح پر اُٹھنے والا اُبھار پی ٹی آئی کے جھنڈے کے نیچے پناہ پالیتاہے۔ عمران خان کے جلسے سیاسی کے ساتھ ساتھ ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن جاتے ہیں۔ڈھولک کی تھاپ اور سیٹیوں کی گونج کے نیچے بم دھماکوں کا خوف دَم توڑنے لگتا ہے ،زندگی لوٹنا شروع ہوتی ہے۔دوہزار تیرہ کے انتخابات میں پہلی بار گھروں میں ووٹ کی تقسیم پڑتی ہے ،نوجوان نسل اختلاف رائے کی علامت ٹھہرتی ہے۔دوہزار تیرہ سے دوہزار اَٹھارہ تک عمران خان سماجی سطح پر خود کو ہر وقت موجودرکھ کر عوام کی آواز کا رُوپ دھارلیتے ہیں۔ مگر اب وزیرِ اعظم کی ناقص کارکردگی اس آواز کو مدہم کررہی ہے،اگر آواز کی موت ہوگئی توعوام کے نقصان کے ساتھ،انتخابی نتیجہ داغدار ہوجائے گا اور عمران خان کی حکومت ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ٹھہرے گی۔