خوں جلایا ہے رات بھر میں نے لفظ بولے ہیں تب کتابوں سے سچ کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں چاہے اس میں سبکی ہوتی ہو۔ پروین شاکر نے بھی تو کہا تھا’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ’’کیا کریں اتنی کتابیں اور رسالے آتے ہیں کہ بعض کو کھولنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ ایک دوتو کتابوں کے بنڈل آئے پڑے ہیں‘ روز سوچتا ہوں کم از کم بنڈل کھول کر کتب کے نام پر پڑھ لوں۔ کیا کریں’’عشق نے غالب نکما کر دیا‘ وگرنہ ہم بھی آدھی تھے کام کے‘‘۔ یہ بھی پرانی بات ہے اب تو یوں لگتا ہے نہ عشق کیا نہ کام کیا‘ وہ بڑے لوگ تھے جو کہہ گئے کہ کچھ عشق کیا کچھ کام کیا۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم کتاب سے دور ہو گئے۔ اپنے مطلب کی کتاب ہم تو اس کی مہک بھی ہمارے شام جاں کو معطر کر دیتی ہے۔ بات ہے دلچسپی کی ہمیں تو کتابی جسم بھی اچھا لگتا ہے ’’ہم نے اس کو چھپ کر دیکھا پڑھتے اپنی کتاب‘‘ مجھے یہ تمہید ایک خوبصورت کتاب کے لئے باندھنا پڑی کہ جس کا مصنف کتاب سے بھی زیادہ خوبصورت اور دلآویز ہے۔ وہ ستر کا ہندسہ پار چکے ہیں مگر اب بھی ان کے چہرے مہرے پر منیر نیازی کی سی معصومیت جھلکتی ہے ۔اسی طرح کا لال سرخ سیب جیسا رنگ مگر یہ باریش ہیں۔ نام ان کا ہے رشید احمد انگوی۔ جی ہاں وہ انگہ کے ہیں جہاں کے سید احمد ندیم قاسمی تھے اور غالباً عبدالقادر حسن بھی۔ رشید احمد انگوی علم سے مالا مال شخص ہیں وہ حسب و نسب بلند مرتبہ علماء کے گھرانے سے ہیں مگر وہ بیالوجی کے پروفیسر رہے ‘یوں دونوں طرح کے علم نے انہیں دو آتشہ کر دیا۔ زیر نظر کتاب ’’تلخ و شیریں یادیں‘‘ ان کی معلمانہ زندگی پر مشتمل ہے لیکن کہنے کی بات یہ ہے کہ ان کی تحریر اور بیان دونوں اتنے دلچسپ ہیں کہ آپ کتاب چھوڑنا بھی چاہیں پھر بھی یہ کمبل کی طرح آپ کو نہیں چھوڑے گی۔ وہ ہرگز زاہد خشک نہیں ہیں بلکہ سائنس اور عصری علم نے انہیں طرحدار بنا دیا ہے ان کے ہاں برجستگی حس مزاح اور شگفتگی نظر آتی ہے۔ کتاب پڑھتے پڑھتے میں اچانک چونکا کہ ان کو ایک سانپ نظر آیا جو رنگین تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اسے زخمی کیے بغیر پکڑا جائے تاکہ اس کا حسن تباہ نہ ہو۔ انہوں نے دوست کی مدد سے اس سانپ کو چھڑی سے اٹھانے کی کوشش کی تو یہ چھوٹا سا سانپ بے حرکت ہو گیا۔ تب انہیں پتہ چلا کہ ننھے سانپ کو غالباً ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے کہ اس پر دو جوان حملہ آور ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایک نہایت دلچسپ واقعہ کہ بلوچستان کے علاقے میں ایک بہت ہی زہریلا سانپ پایا جاتا ہے کہ جس کا ڈنگ لگ جائے تو بندہ پانی نہیں مانگتا۔ انگریز سیاح نے کئی دنوں کی تلاش کے بعد اس سانپ کو دور سے دیکھ لیا اور اب اسے پکڑنا مسئلہ تھا۔اس کے ساتھ مقامی گائیڈ نے انگریز کے روکنے کے باوجود اس زہریلے ترین سانپ کو پکڑ لیا اور لے آیا۔ انگریز سیاح دم بخود رہ گیا۔ اس آدمی نے بتایا کہ اسے سانپ پکڑنے کا دم آتا ہے۔ تب انگریز کی دم سکھینے میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ ہر بندے کے دل میں کچھ ناآسودہ خواہشات ہوتی ہیں۔ مثلاً مجھے اکثر خیال آتا ہے کہ میں فیض صاحب سے مل لیتا۔ میں یونیورسٹی میں تھا کیا پتہ تھا کہ وہ اچانک پردہ کر جائیں گے۔ کبھی کبھی میں مولانا مودودی کی محفل کا بھی سوچتا ہوں کہ یہ گورا چٹا سید زادہ کیسا لگتا ہو گا۔ جب میں نے رشید احمد انگوی کا یہ پڑھا کہ وہ یونیورسٹی کے زمانے میں ملازمت سے پہلے روز عصر کے بعد مولانا مودودی کی محفل میں جا بیٹھتے تھے تو مجھے سچ مچ ان پر رشک آتا ہے۔ فیض صاحب سے ایک صحافی نے مزہ لینے کے لئے پوچھا کہ ان کا مولانا مودودی کے بارے میں کیا تاثر ہے۔ فیض صاحب نے کہا وہ نہایت اچھی نثر لکھتے ہیں‘ انگوی صاحب بتاتے ہیں کہ وہ مولانا کی محفل میں کئی سال تک تو خاموشی سے بیٹھ کر ان کی باتیں سنتے رہے۔ یہ سلیقہ ‘ قرینہ اور آداب حالانکہ انگوی صاحب کا تعلق ننھیال اور ددھیال سے نہایت عالم فاضل پس منظر سے تھا۔ ان کے والد شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی محمد خلیل تھے جو محدث کبیر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری کے مثالی شاگرد تھے۔ یہ وہی مولانا انور کاشمیری ہیں جن کو علامہ اقبال اپنے پاس لاہور میں رہنے کے لئے بلاتے رہے۔ انگوی صاحب کے نانا جان حضرت قاضی حسین محمد نقشبندیہ مجددیہ کی عظیم خانقاہ موسیٰ زئی تھے جن کی روحانی وابستگی حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی سے تھی۔ انگوی صاحب دس سال تک مولانا مودودی کے درس میں بیٹھے۔ رشید احمد انگوی میں وسعت نظری بھی ہے کہ وہ مکالمہ پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اس دور میں فعال رہے جب رائیٹ اور لیفٹ میں آویزش تھی۔ لوگ پڑھتے تھے اور مطالعہ کے زور پر بحث مباحثہ ہوتا۔وہ بتاتے ہیں کہ معروف پروفیسر غلام محی الدین عرف جی ایم ڈی مرزا سزا پانے کے بعد پرنسپل بن کر آئے تو پتہ چلا کہ وہ ایئر فورس کے زمانے میں راولپنڈی کیس 1951ء کے ایک کردار رہے ہیں۔ وہ سچ مچ ایک سچے انقلابی تھے ان کے ساتھ کارل مارکس ‘ لینن‘ بھٹو اور بھاشانی تک ہر موضوع پر بات ہوئی۔ پھر وہ مجھے کہتے’’تمہیں تومیں نے کامریڈ بنا کر چھوڑنا ہے‘‘وہ مولانا مودودی پر بہت برستے تو میں انہیں کہتا کہ مولانا مودودی ان کے حواس پر سوار ہیں اور آپ کو خواب میں بھی ڈراتے ہیں۔ تب وہ غصے میں آ کر کہتے ’’میں اوہنوں کیہہ سمجھناں واں‘‘ یہ کیسا اچھا زمانہ تھا نظریاتی لوگ ایک دوسرے کی سنتے تھے دلیل سے مکالمہ کرتے تھے۔ انگوی صاحب بہت ہی وضعدار شخص ہیں اور ان کا بھی جگر جیسا نظریہ ہے کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ وہ بہت ہی احسان مند و احسان شناس دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے اپنی اس خودنوشت میں اپنے کولیگز اور دوستوں کا ذکر بڑی فیاضی سے کیا ہے ۔خاص طور پر رفیق احمد صاحب کا کہ مولانا مودودی صاحب نے ان کا ہاتھ رفیق صاحب کے ہاتھ میں دیا تھا رفیق صاحب انگوی صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد منصورہ کالج میں وائس پرنسپل لے آئے میں سمجھتا ہوں کہ اس کتاب سے ایک جذبہ اور ولولہ تازہ ضرور برآمد ہوتا ہے۔ رشید احمد انگوی کی تلخ و شیریں یادیں تو ان کا ایک پہلو ہے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ قرآن پر گہری نظر رکھتے ہیں انہیںصرف ونحوہی سے واقفیت نہیں ‘ دوسرے علوم بھی ان کے سامنے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر میں ان کی اقبال شناسی کا بہت قائل ہوں اور اقبال کے پیغام کو نوجوانوں کے لئے آب حیات اور حیات نو کا استعارا جانتے ہیں۔ وہ ان عظیم لوگوں میں ہیں جو معاشرے کو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ پیرانہ عمری میں بھی فعال ہیں اور فیس بک پر بھی اپنی رائے لکھتے رہتے ہیں ان کی ایک اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ اگر انہیں کہیں پر درس قرآن کے لئے بلایا جائے وہ انکار نہیں کرتے یہ ان کے لئے مشن ہے: ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے