کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذہن خالی ہو جائے‘ لفظ گم ہو جائیں۔ لکھنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو‘ سوچنے کو کوئی موضوع نہ ملے‘ آپ قلم کاغذ سامنے رکھ کر دیواروں کو بے معنی نظروں سے گھورتے رہیں۔ ایسا تب ہوتا ہے جب قومی سیاست کا شورو غوغا آپ کو بیزار کر دے۔ نیب کے حضور پیشیاں عدالتی احکامات اور سیاست دانوں کے بیانات سے بھی جب اوب جائے اور پھر بے معنویت کا گہرا احساس جسم و جاں کو اپنی لپیٹ میں لے کر آپ کو کسی کام خصوصاً لکھنے پڑھنے کے کام سے الگ تھلگ کر دے جب لکھنے والا لکھنے کی صلاحیت سے خود کو تہی محسوس کرنے لگے اور کوشش کے باوجود کچھ نہ لکھ سکے تو اسے انگریزی میں رائٹرز بلاک کہتے ہیں۔ پتہ نہیں دوسرے کتنے کالم نگاروں کو اس کا تجربہ ہوا ہے لیکن ہمارا معاملہ کچھ یوں ہے کہ سال چھ مہینے میں ایک موسم ایسا ضرور آتا ہے جسے میں سوکھے کا موسم کہتا ہوں۔غیب سے مضامین کا نزول بند ہو جاتا ہے اور لاکھ جستجو اور کوشش کے باوجود قلم کا گھسنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مرزا غالب نے اپنے کسی مکتوب میں اس کیفیت کو اندر کے ناسور کا رسنا قرار دیا تھا کہ جب اندر کا رسنا بند ہو جائے تو شعروں کے نزول کا سلسلہ معطل ہو جاتا ہے۔ اپنی کیفیت یوں تو نہیں کہ خدا جانے کوئی ناسور اندر ہے بھی یا نہیں۔ لیکن یہ سچ ہے کہ یکسانیت اور جمود زندگی کے کسی کام کے قابل نہیں چھوڑتے۔ روٹین یا روزانہ کے معمولات اچھے بھی ہیں کہ آدمی خود کار مشین بن کر عادتاً نظام الاوقات کا پابند ہو جاتا ہے لیکن ایسے لوگ جو حساس ہوں اور زندگی کو تبدیلیوں اور ارتقا سے ہمکنار دیکھنا چاہتے ہوں وہ گاہے گاہے لگے بندھے کاموں سے ہٹ کر بھی کچھ چاہتے ہیں۔ یہ ’’کچھ اور ‘‘کیا ہے اسے نفسیاتی کیفیت کا نام دیا جائے تو اس کی تشریح یوں کی جا سکتی ہے۔آج جب انسانی روبوٹ بنانے پر قادر ہو چکا ہے خود بھی یکے از روبوٹ بن چکا ہے۔ انسان فطرتاً تنوع پسند ہے۔ وہ زندگی میں رنگا رنگی چاہتا ہے۔ آج کی زندگی کے معمولات اس کے برعکس ہیں۔ کم و بیش اکثر لوگ ایک روٹین کی زندگی گزارتے ہیں۔ آدمی ایک مسلسل تکرار میں گرفتار رہے تو اس کا جی جلد اوب جاتا ہے۔ وہ کچھ اور چاہتا ہے۔ کچھ اور کا مطلب کچھ ایسا جس سے اندر اطمینان اور مسرت کی لہر اترتی چلی جائے۔ ایک مختلف دن گزار کر آدمی انگڑائی لے کر کہہ سکے کہ آج کا دن کتنا اچھا تھا۔ مزہ آ گیاایسے دن ہر ہفتے یا ہر مہینے نہیں آتے۔ شاذ ہی آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو زندگی کو دلکشی اور حسین بنا جاتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں اس دنیا میں صرف کام کرنے کے لئے نہیں بھیجا۔ اس لیے تو ہمیں خلق نہیں کہا گیا کہ ہم کولہو کے بیل بنے ایک ہی مرکز کے گرد چکر کاٹتے رہیں اور آنکھوں پر پٹی بھی نہ بندھی ہو۔ ہاں کبھی کبھی اپنے معمولات کو بدل کر بھی دیکھنا چاہیے۔ کچھ کرتے کرتے رک جانا اور کچھ بھی نہ کرنا یہی انسان کے اختیار میں ہے اور اپنے بدلے ہوئے معمول سے لذت کشید کرنا۔ یہ بھی تو زندگی ہے۔ کتابوں میں آتا ہے کہ جرمن فلسفی نطشے اپنے معمولات کا اس قدر پابند تھا کہ جب شام کو ہوا خوری کے لئے گھر سے نکلتا تھا تو لوگ اسے دیکھ کر اپنی گھڑی کا وقت درست کر لیتے تھے۔ پابندی وقت کی بڑی برکتیں ہیں اور ہم سے پہلے کے لوگوں نے اس پابندی سے بہت کچھ کمایا اور بنایا ہے۔ حضرت اشرف علی تھانویؒ جنہوں نے ایک اندازے کے مطابق تین سو چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف کیں۔ اپنے معمولات کے اس درجہ پابند تھے کہ کوئی وقت خواہ سکینڈوں اور منٹوں کا ہی کیوں نہ ہو۔ ضائع کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ایک مرتبہ ان کی خانقاہ میں ان کے ایک استاد دارالعلوم دیوبند سے تشریف لائے۔ حضرت نے استاد محترم کی تواضع میں کوئی کمی نہ کی لیکن رات کے وقت انہوں نے عرض کیا کہ استاد محترم! یہ وقت میرے لکھنے کا مقرر ہے تو کیا میں کچھ وقت اس کام کو دے سکتا ہوں۔ استاد گرام نے خوشی اجازت دے دی۔ لائق شاگرد نے جا کر کچھ وقت لکھنے لکھانے کا کام کیا اور پھر فوراً ہی واپس آ گیا۔ استاد محترم نے جلدی لوٹ آنے پر استفسار کیا تو جواب ملا’’حضور! میں اس معمول کا پابند ہوں۔ ناغہ اس لیے نہیں کرتا کہ بے برکتی نہ ہو جائے تو ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو سوچ سمجھ کر ارادے کے ماتحت خود کو ایک مربوط نظام الاوقات کا پابند بنا لیتے ہیں۔ اکثر و پیشتر لوگ وہ ہیں جو دفتری اور کاروباری وجوہ کے بنا پر ایک معمول کے پابند ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کی تعطیلات بھی معمول کے ڈور سے بندھی ہوتی ہیں۔آدھی ویسے بھی معمول اور موڈمیں سے کسی ایک کا پابندی ہوتا ہے۔ موڈ بھی ایک ذہنی کیفیت ہے جس کے زیر اثر ہونے پر کوئی معمول نہیں بن پاتا۔ موڈیل لوگ کہتے ہیں زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہاں تک فنون لطیفہ کی دنیا میں بھی بڑے ادیب اور بڑے فنکار وہی ہیں جو معمول کے پابند ہوں۔ شاعر مشرق سحر خیز تھے۔ لندن گئے تو وہاں کی کڑاکے دار سردی میں بھی سحر خیزی کی عادت نہ گئی: زمستانی ہوا میں تھی گوشمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں آداب سحر خیزی بلکہ سحر خیزی کے علامہ اتنے قائل تھے کہ یہ تک فرما گئے: عطاّر ہو‘ رومی ہو‘ رازی ہو ‘غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی آج کی زندگی جو مشینوں کے استعمال سے عبارت ہے۔ مشینوں کی صحبت میں رہتے رہتے خود انسان بھی مشین ہی بن گیا ہے لیکن مشینوں کے لئے بھی صفائی ستھرائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں بھی اوور ہالنگ کی اس لیے ضرورت ہے کہ ہم ہمہ وقت چاق و چوبند رہیں۔ ہشاش بشاش نظر آئیں۔ کراچی میں بازاروں میں جو بے برکتی سی نظر آتی ہے اس کی وجہ کچھ اور نہیں کہ یہ آدھا دن گزر جانے کے بعد دکانیں کھلتی ہیں۔ آدھی رات تک کھلی رہنے والی دکانیں سورج کے طلوع ہوتے ہی کھل بھی کیسے سکتی ہیں؟ تجارت پیشہ لوگ یہ تک نہیں سوچتے کہ آدھی رات تک دکانیں کھلی رکھنا جبکہ ملک پہلے ہی بجلی کی قلت کے بحران سے دوچار ہے کہاں کی عقل مندی ہے۔ جو لوگ یورپ اور امریکہ سے کراچی آتے ہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسا کاروبار ہے جو آدھے دن کے بعد شروع ہوتا ہے۔ دیکھیے بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں جا پہنچی۔ عرض کر رہا تھا کہ کبھی کبھی لکھنے سے بھی جی بیزار ہو جاتا ہے جیسے ہجوم میں رہنے والے کو کبھی تنہائی اختیار کرنے کی حاجت شدت سے ہونے لگتی ہے۔ لیکن فطرت اور قوانین فطرت نہیں بدلتے۔ زندگی اکیلے نہیں گزاری جا سکتی۔ کچھ وقت کے لئے تنہائی اور پھر وہی سرگرمی‘ وہی گہما گہمی۔ آج اپنی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے بے ساختہ حقّی مرحوم کا شعر یاد آ گیا: آپ کیا سادہ ہیں جو حال کسی نے پوچھا خوش گماں ہو کے لگے زخم دکھانے اپنے ہاں دکھانے میں بھی تسلی کا ایک خوشگوار پہلو ہے۔ رہے نام اللہ کا