بعد نماز عید بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری سے عید ملیں گے، کہاں؟یہ کہنا مشکل ہے۔عبوری ضمانتوں کا سلسلہ کامیابی سے جاری رہا تو ممکن ہے بلاول ہاوس لاہور یا کراچی میں یہ روح پرور نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔دونوں باپ بیٹا سویاں کھائیں گے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے نکل کھڑے ہونگے۔ ادھر کوٹ لکھپت جیل میں سزا بھگتتے شیر پنجاب میاں نوا ز شریف قیدیوں کے ساتھ نماز عید ادا کریں گے۔سلا م پھیرتے ہی کوٹ لکھپت جیل سے باہر نیلسن مینڈیلا کو عید مبارک کہنے کے لیے جمع ہونے والے لاکھوں کارکنان اور مریم اورنگ زیب کی سربراہی میں نئی نویلی مسلم لیگ بغیر نون کو کانی آنکھ اور پوری انگلی کا اشارہ کریں گے۔ کیا ایسا کوئی خواب دیکھنے پہ پابندی ہے؟ہرگز نہیں۔شوق سے دیکھئے۔ عوام لیکن آپ کے اس خواب میں کیوں شریک ہو؟کیا اس لئے کہ ڈالر اڑتا جارہا ہے اور روپیہ گرتا جارہا ہے؟ تو ایسا پاکستا ن میں کب نہیں ہوا؟کبھی روپے کو آپ نے اپنی زندگی میں واپس اپنی قدر پہ جاتے دیکھا ہے؟ایسا ڈالر مافیا ہونے نہیں دیتا۔نہ ہی وقت گزرنے کے ساتھ یہ ممکن ہے کیونکہ پاکستا ن میں متوازی اقدامات نہ ہونے کے باعث دیگر اشاریے بھی منفی رہتے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں حقیقی معاشی اصلاحات شاید ہی کبھی ہوئی ہوں۔ ہم ڈالر کے پیچھے بھاگتے رہے۔کرنسی کا استحکام اصل مقصد ہونا چاہئے۔ اسے غیر فطری طریقے سے روکا گیا ۔ ڈار اور ڈالر کا کیا لیتھل کامبینیشن تھا۔گئے روز اک صاحب بتا رہے تھے کہ ڈار اینڈکمپنی نے حکومت پاکستان نے چھ ارب ڈالر کے بانڈز آٹھ فیصد شرح سود پہ خرید رکھے ہیں۔ان میں سے چار ارب ڈالر کے بانڈز نواز شریف اور حسن حسین کے دوستوں اور مریم نواز کے سمدھی نے خریدے۔یہ یاد دہانی ضروری نہیں کہ اس وقت اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے یعنی حکومت پاکستان نے اپنے بانڈز اپنے وزیر خزانہ کے دوستوں اور رشتہ داروں کو فروخت کردیے وہ بھی گراں شرح سود پہ۔ اب موجودہ حکومت ان پہ حامل ہٰذہ کو مذکورہ سود ادا کرنے کی پابند ہے وہ بھی عام شرح سے زیادہ۔ان کی میچوریٹی کی مدت پہ اصل رقم بھی واپس کرنی ہوگی۔ایسی چھوٹی موٹی کئی وارداتیں ڈالی گئی ہیں۔ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا تھا کہ اسحق ڈار پاکستان کی معیشت میں بارودی سرنگیں بچھا کر گیا ہے۔اب یہ بارودی سرنگیں پھٹ رہی ہیں تو زخمی کون ہورہا ہے۔ عوام اور موجودہ حکومت کی ساکھ۔ کیا شاطر لوگ اس ملک نے قسمت میں لکھوا رکھے ہیں۔میرے زود پشیماں مفتاح اسمعیل نے بالاخر تسلیم کرلیا کہ انہوں نے روپے کی قدر مصنوعی طور پہ بڑھا رکھی تھی۔ اب فارن ایکسچینج ریزرو اتنے نہیں رہے تھے کہ روپیہ مینٹین کیا جاسکتا۔ اس لئے ہماری طرح مصنوعی طور پہ روپیہ پکڑ کے رکھنے کی بجائے مارکیٹ کے سامنے سرنڈر کر دیا گیا اور یہی کرنا چاہئے تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے کیا یہ حرکت ایک سے زائد بار کی تھی؟اگر کی تھی تو معاشی خلا کو پر کرنے کے لئے کیا اقدامات کیے گئے تھے؟کیا وہی کہ آٹھ فیصد بونڈ خرید کر رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کردیئے تھے؟یا ملکی خزانے کو نانی اماں کا پاندان سمجھ رکھا تھا کہ جب چاہا کھولا،نکالا اور مارکیٹ میں پھینک دیا؟مال مفت دل بے رحم کی اس سے بہتر مثال کیا ہوگی۔ اس حکومت کے لیے بھی یہی سوال ہے کہ اس خطرے کے پیش نظر جب آئی ایم ایف سے مزاکرات جاری تھے اور انہیں بوجوہ آٹھ ماہ تک موخر کیا جاتا رہا تو بے یقینی پہ قابو پانے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے کیونکہ ایسی صورت میں روپے کی ڈی ویلویشن کا خطرہ اظہر من الشمس تھا۔کچھ ایسا سنا تھا کہ ملکی برآمدات میںاس بار اضافہ ہوا ہے۔ ممکن ہے وہ اس قدر نہ ہو کہ ملک کے ریزروز کے ساتھ یہ ایڈواینچر کیا جائے جو اسحاق ڈار اور مفتاح اسمعیل کرتے رہے ہیں تو ڈالر مافیا پہ نظر رکھنی چاہئے تھی جو ایسے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہر دم چوکس رہتا ہے اور جس میں مبینہ طور پہ دہائیوں سے ان ہی لوگوں کے گماشتے بیٹھے ہیں۔ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ساری مارکیٹ ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔یہ مافیا اپنے کرتوتوں کا ملبہ اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے پہ ڈالتا ہے۔یعنی یہ ادارے ڈالر کی خرید وفروخت میں اتنے دخیل ہوگئے ہیں کہ عام آدمی اوپن مارکیٹ کی بجائے ڈالر خریدنے کے لئے گرے مارکیٹ کا رخ کرتا ہے جس کا حجم عام مارکیٹ سے کئی گنا بڑھ چکا ہے اور لوگ ہنڈی اور حوالہ کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ان ہی معصوم لوگوں میں ایک آصف علی زرداری ہیں جو اسی پوچھ گچھ اورتفتیش سے تنگ آکر اپنے کاروبار کے لئے بنائے گئے اکاوئنٹس چھپائے بیٹھے تھے جنہیں نیب خوامخواہ جعلی اکاونٹس کہنے پہ مصر ہے۔ ہر بھلا آدمی حکومت کی ناک اپنے کاروبار سے الگ رکھنے کے لئے ایسے اکاونٹس بنا لیتا ہے۔انہوں نے ایسا کرلیا تو کیا گناہ کیا۔ہاںا تنا ضرور ہے کہ اب سے پہلے وہ جعلی اور بے نامی اکاونٹس کو ماننے سے ہی انکاری تھے۔ لگتا ہے مرد حر کے اعصاب جواب دے گئے ہیں اور تازہ ترین تفتیش میں وہ چیخ پڑے ہیں کہ یہ اکاونٹس ان ہی کے ہیں البتہ انہیں بزنس اکاونٹ لکھا اور پکارا جاوے۔یہ معاملہ تو نمٹا۔ اب رہ گئیں مشکوک ٹرازیکشنز تو ان کی بھی کوئی شرعی اور معقول وجہ ہوگی۔مجھے تو میڈیا کے رویے پہ حیرت ہے جو عمران خان کی زبان کی پھسلن پہ کئی کئی روز ٹاک شوز کرتا اور شور مچاتا رہتا ہے لیکن زرداری کے اس تازہ ترین اور تہلکہ خیز اعتراف پہ بالکل خاموش ہے۔ ہاں ان کے وکیل فاروق نائک نے اپنے باس کے غصے میں کئے گئے اعتراف پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی اکاونٹس سے ان کے موکل کا کوئی تعلق نہیں۔ اب ہم موکل کے اعترافی بیان کا یقین کریں یا اس کے وکیل کی صفائی کا؟یعنی یہ اکاونٹس اگر ان کے نہیں ہیں تو بزنس اکاونٹس کس کو کہا گیا ہے؟عجیب گڑ بڑ ہے۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کوڑیوں کے مول بیچی گئی ۔ ظاہر ہے یہ بلاول ہاوس لاہورمیں بیٹھے بڑے صاحب کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔اب سرمایہ دار تو قریبا پانچ سو ارب دے کر جان چھڑا رہا ہے سیاست دان تو پھر مزے میں رہا۔ نہ سوئس اکاونٹس پہ آنچ آرہی ہے نہ مقامی جعلی اکاونٹس پہ۔ ایسے میں عید کون خراب کرے گا؟