جدید میڈیا کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے کے اصل خدمت گاروں کو نظر انداز کرتا اور تیسرے درجے کے لوگوں کو جو سیاست اور تجارت پر چھائے ہوئے ہیں‘ انہیں بڑھاوا دیتا ہے۔ حافظ ڈاکٹر احسان الحق ایک ایسی ہی اصیل شخصیت تھی جنہوں نے عمر کا بڑا حصہ درس و تدریس میں گزارا، اپنے علم سے تشنگان علم و ادب کی پیاس بجھائی‘ اپنی پرسوز قرات سے سننے والوں کو مسحور کیا۔ بہ حیثیت مفتی رہنمائی کے لئے رابطہ کرنے والوں کو ایسی رائے دی جس سے یہ جھلکتا تھا کہ ہمارا دین فی الواقع دین رحمت ہے۔ بحیثیت انسان ڈاکٹر صاحب دل درد مند کے مالک تھے۔ انتہائی حساس‘ شفیق اور مہربان۔ قرآن حکیم انہیں ایسا ازبر تھا کہ کسی نے مسئلہ بتایا اور آپ نے رہنمائی کے لئے آیت سنا دی۔ نکتہ سنجی اور معاملہ فہمی ایسی کہ باید و شاید۔ میں ان کے دیرینہ مداحوں اور نیاز مندوں میں تھا۔ کراچی یونیورسٹی کیمپس میں ان کا پڑوسی ہونے کے ناتے انہیں بہت قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ اس بنیاد پر میں گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ اپنی شخصی خوبیوں کے سبب اللہ تبارک تعالی کے مقبول بندوں میں سے تھے۔ اس کی تصدیق ان کی رحلت کے بعد کے واقعات سے ہو گئی۔ وہ رواں مہینے اپنی اہلیہ اورفرزند عرفان کے ساتھ عمرے کے لئے حجاز مقدس گئے ہوئے تھے۔ وہیں رات کے پچھلے پہر تہجد کی نماز ادا کرتے ہوئے بلاوا آ گیا اور پھر وہ واقعات پیش آئے جن سے سراغ ملا کہ وہ اللہ کے کیسے پسندیدہ اور مقبول بندے تھے۔ تدفین کے سارے مشکل مراحل نہایت سہولت سے طے پا گئے۔ انہیں آب زم زم سے غسل دے کر سعودی حکام نے سبز مخملی کفن پہنا کے جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفانؓ کے قریب سپرد خاک کیا۔ یہ ایسا اعزاز تھا کہ ان کی اہلیہ اور بیٹے کو قرار آ گیا۔ حافظ ڈاکٹر احسان الحق عربی زبان کے بڑے اسکالر تھے۔ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ’’اردو اور عربی کے لسانی روابط‘‘ کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوا تو شعبہ فلسفہ کے استاد اور معروف دانشور ڈاکٹر منظور احمد نے انہیں گھر جا کر مبارکباد دی اور فرمایا کہ آپ کا مقالہ ہماری یونیورسٹی کے لئے ایک علمی اعزاز ہے۔ ایسے ہی مقالوں سے یونیورسٹی کا علمی و تحقیقی معیار متعین ہوتا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر منظور احمد کی تعریف کے کیا معنی ہیں۔ وہ دل رکھنے اور حوصلہ افزائی کے لئے تعریف کے دو بول ادا کرنے کے کبھی روادار نہ ہوئے، خصوصاً جب معاملہ علم کا ہو۔ ڈاکٹر احسان الحق ایک فصیح البیان مقرر بھی تھے۔ انہیں جب بھی تقریر کرتے سنا‘ علم میں اضافہ ہی ہوا۔ جب بھی ان سے گفتگو ہوئی۔ زیر گفتگو موضوع سوچنے سمجھنے کے نئے زاویے ہاتھ آئے۔ خدا ترسی اور خلق خدا کے لئے درد مندی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ انہیں جدید زمانے اور جدید مسائل کا غیر معمولی شعور تھا۔ کوئی ان سے دینی معاملے پر مشورے کا طالب ہوتا تو مشورہ دیتے ہوئے بدلے ہوئے حالات اور مشورے کے طالب کی تنگ دامنی کا بہت لحاظ رکھ کر رعایتوں کے ساتھ مشورے دیتے۔ ان کے ہاں دوسرے مفتیوں کی طرح تنگی نہیں کشادگی ملتی تھی۔ اس لئے میرے دل میں ان کا بڑا احترام اور محبت تھی۔ جب بھی کوئی فقہی مسئلہ درپیش ہوتا میں ان ہی سے رجوع کرتا تھا اس لئے کہ یقین تھا کہ وہ مزاج شناس دین ہیں اور کبھی کوئی ایسی رائے نہیں دیں گے جس پر عمل دشوار ہو گا۔ڈاکٹر صاحب کو قدرت نے بلا کی پرسوز آوازعطا کی تھی۔ رمضان المبارک کے موقع پر تراویح پڑھنے کے لئے انہیں شکاگو امریکہ میں مدعو کیا جاتا تھا۔ جہاں انہوں نے برسہا برس یہ مقدس ذمہ داری ادا کی۔ بیرون ملک مساجد میں طرح طرح کی سیاستیں ہوتی ہیں جو باہمی بحث و نزاع کا موضوع بنی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جس مسجد میں تراویح پڑھانے جاتے تھے وہاں ان کی معاملہ فہمی اور کشادہ دلی سے یہ سارے مذہبی جھگڑے صلح جوئی پر ختم ہو جاتے تھے۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ سعودی جو کسی غیر سعودی کی تلاوت و قرأت پر مشکل ہی سے آمادہ ہوتے ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کو نہایت اطمینان قلب کے ساتھ اپنا امام بناتے اور ان کی قرات سے فیض یاب ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے برسہا برس پی ٹی وی پر حج کی ٹرانسمیشن میں شرکت کر کے اس کا آنکھوں دیکھا حال بھی بیان کیا اس فریضے میں انہیں اتنی مہارت تھی اور سننے والوں اور دیکھنے والوں میں انہیں اتنی ہر دلعزیزی حاصل تھی کہ جب تک انہوں نے خود معذرت نہیں کر لی ٹیلی وژن پر یہ فریضہ ان ہی سے لیا جاتا رہا۔ نواز شریف دور حکومت میں نصاب کو ازسر نو مرتب کرنے کے لئے جو کمیٹی بنی‘ ڈاکٹر صاحب اس کمیٹی کے سرگرم رکن بھی رہے اور نیا نصاب مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی ادا کی اور پھر اس کی روشنی میں انہوں نے اسلامیات کی کتابیں بھی تیار کر دیں۔ ان میں بڑی صلاحیتیں تھیں اس قسم کے کاموں کی۔ افسوس کہ ان کی صلاحیتوں سے جتنا کام لینا چاہیے تھا نہیں لیا گیا۔ وہ جماعت اسلامی کے متاثرین میں تھے لیکن جماعت کے سیاسی معاملات پر انہیں بہت زیادہ ذہنی تحفظات تھے جس کا وہ اعلانیہ اظہار تو نہیں کرتے تھے لیکن نجی گفتگو میں انہوں نے بارہا اس کا تذکرہ نہایت دکھ اور کرب سے کیا۔ ملک کی ناگفتہ حالت پر وہ بہت رنجیدہ اور دل شکستہ رہتے تھے اور ایک عرصے سے اس احساس کے تحت انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر رکھی تھی۔ ٹیلی ویژن کے پروگرام اور تقریبات میں انہوں نے جانا آنا چھوڑ رکھا تھا۔ میں جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا‘ انہیں اسی دل شکستگی کے عالم میں پایا۔ میں ان کی دل جوئی کے لئے اس یقین کا اظہار کرتا تھا کہ حالات رفتہ رفتہ سدھر جائیں گے اور ایک نہ ایک دن ہمارا سر بلند و سرخرو ہو گا۔ میرے کچے پکے ملکی تجزیے کو وہ بغور سنتے تھے‘ خوش ہوتے تھے اور چلتے وقت فرماتے تھے بھئی آپ آتے رہا کریں۔ آپ کی گفتگو سے میرا ڈیپریشن دور ہو جاتا ہے۔ میں بھلا کہاں کا تجزیہ کار۔ لیکن یہ ان کی بڑائی تھی کہ وہ اپنے چھوٹوں کو بھی اہمیت دیتے تھے۔ ان کی شخصیت نے مجھے اتنا متاثر کیا تھا کہ میں نے ان کی بابت ’’فرائیڈے سپیشل‘‘ میں ایک تفصیلی خاکہ لکھ کر چھپوایا۔ اس خاکے کے نتیجے میں دو ایک باتیں ایسی ہوئیں جن کا تذکرہ ضروری نہیں۔ وہ اس سے اپنے انکسار کے باوجود خوش ہوئے۔ البتہ پھر ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ دو ایک بار ٹیلی فون پر اور آخری بار میسج پر گفتگو ہوئی۔ ان کے بیٹے فیضان نے بتایا کہ عمرے پہ جاتے ہوئے وہ اس خاکسار سے ملنا چاہتے تھے۔ ملاقات نہ ہونے کا انہیں قلق بھی تھا میری بدنصیبی کہ مجھے پتا ہی نہ چل سکا کہ وہ عمرے کا قصد کئے ہوئے ہیں۔ ورنہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتا اب تو دوسری دنیا ہی میں ان سے ملاقات ہوگی اور مجھے یقین ہے کہ وہاں بھی وہ مجھ جیسے گناہ گاروں کے لئے آسانیاں بہم پہنچانے کا سبب بنیں گے۔ وہ ایک سعید روح رکھتے تھے۔ عالم ہونے کے باوجود طبیعت میں خشکی نام کو نہ تھی۔ نہایت شگفتگی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور اچھے فقروں کی داد دل کھول کردیتے تھے۔ میرے تووہ محسن تھے کہ جب 98ء میں میری طبیعت ناساز ہوئی تو انہوں نے مجھے بہت سہارا دیا ارو اپنی شفیق تسلیوں سے میرے لئے باعث سکون و طمانیت بنے۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کا اجر دے۔ ان کی لغزشوں سے صرف نظر کرے۔ ہمارا معاشرہ ایک اور عالم باعمل سے خالی ہوگیا۔