پہلے ایک شعر: اپنے نقوش پا کے سوا کچھ نہیں ملا اپنے سوا کوئی نہیں صحرا کے پار بھی زمستان میں مشاعرے کثرت سے ہوتے ہیں، شاید سردی کو کم کرنے کے لیے خاص طور پر لاہور میں تو آئے دن کوئی تنظیم مشاعرہ برپا کردیتی ہے۔ آپ سب مشاعروں میں شرکت بھی نہیں کر سکتے کہ کئی بے ثمر ہوتے ہیں کہ سننے سنانے والے سب شاعر ہی ہوتے ہیں۔ لطف وہاں ہوتا ہے جہاں سامعین ہوں اور ہوں بھی ہونہار، چمکتے دمکتے اور مسکراتے چہرے۔ اس حوالے سے کالجز میں جا کر اچھا لگتا ہے۔ ایک ایسا مشاعرہ ایکس پو سنٹر میں اسلامی جمعیت نے کروایا تھا جس کی صدارت انور مسعود نے کی تھی اور میں نے نظامت۔ فی الحال میں اس کا تذکرہ چھوڑتا ہوں۔ تازہ ترین اور تروتازہ مشاعرہ ایف سی کالج کا تھا کہ یہ کالج اس حوالے سے نمبر لے گیا ہے۔ یقینا اس کے پیچھے سارا حسن انتظام ڈاکٹر اختر شمار اور ان کے معتمد ڈاکٹر طاہر شہیر کا ہے۔ اس مرتبہ کمال بات تو یہ ہوئی کہ اس مشاعرے میں ہمارے معروف کالم نگار ہارون رشید صاحب بھی تشریف لائے اور مرکز نگاہ بنے رہے۔ شاعروں کے درمیان ایک عمدہ نثّار۔ ہم نے بھی طلباء و طالبات سے کہا کہ کبھی آپ ان لمحات کو یاد کیا کریں گے اور میں فراق کا مصرع دہرایا’’ تم فراق سے باتیں کی ہیں تم نے فراق کو دیکھا ہے‘‘۔ مشاعرہ بہت خوب تھا۔ سٹیج پر ہارون رشید صاحب کے ساتھ منصور آفاق، شارق جمال اور راقم یعنی مجھے عزت بخشی گئی۔ مشاعرے کے آغاز میں کچھ لوگ بحر بے کراں میں تھے جو یقینا ناگواری کا باعث بنتے ہیں مگر یہ بھی کالجز کے مشاعروں میں ہوتاہے ۔ ڈاکٹر طاہر شہیر نے آ کر خوب رنگ جمایا کہ وہ مزاج میں اپنی پہچان بنا چکا ہے اور خاص طور پر ہماری عزیزی یعنی سہیل احمد کے لیے حسب حال میں شاعری تحریر کرتا ہے۔ رخشندہ نوید نے آ کر مشاعرے کو مزید اٹھایا: میں اس کی خامشی کو سن رہی تھی وہ اظہار محبت کر رہا تھا ایک شعر اختر شمار کا: کچھ تو بتا کہاں سے یہ آئی نصیب میں کتنی پڑی ہے اور جدائی نصیب میں کالج اور یونیورسٹی کے مشاعروں میں دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ بچے بعض اوقات فقرے اچھالتے ہیں تو ان میں تازگی ہوتی ہے۔ یہی عمر ہے کہ جب آنکھوں میں روشنی اور حیرت نظر آتی ہے۔ شاعری سے لطف اندوز ہونا اور پھر اس کا اظہار دونوں دل کو بھاتے ہیں۔ جب ناصر بشیر اپنا کلام پیش کرنے آیا تو اس نے کہا کہ ہارون رشید سے ایک عرصہ بعد ملاقات ہورہی ہے۔ پھر اس نے ہارون رشید صاحب کے نام ایک شعر پڑھا: ذرا سی اور پلائو کہ ہوش آئے مجھے نہیں پیوں گا جو کچھ اور ڈگمگائوں گا اس پر سب کاردعمل فطری تھا۔ ہارون صاحب بھی مسکرانے لگے۔ سب نے حظ اٹھایا۔ ڈاکٹر اختر شمار مہمانوں کے درمیان سامنے براجمان تھے۔ میں نے انہیں سٹیج پر بلایا مگر وہ آج کل صوفی لوگوں کا انداز اختیار کر رہے ہیں۔ بات تو درست ہے، سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے کا بنجارا۔ مگر دنیا کی ہائو ہو اور رنگ و بو بھی تو جینے نہیں دیتی۔ مشاعرے میں ڈاکٹر اشفاق ورک، اعجاز رضوی، بینا گوندی، صائمہ آفتاب اور فرخ محمود بھی شامل تھے۔ فرخ کا ایک شعر دیکھئے: تمام لوگ جسے شاعری کہیں فرخ جہان حبس میں ہم کھڑکیاں بناتے ہیں بینا گوندی امریکہ ہوتی ہیں مگر وہ پاکستان کو بھی نہیں بھولتیں۔ کوئی کانفرنس اور مشاعرہ ہو چلی آتی ہیں اور رونق میں اضافہ کرتی ہیں۔ صائمہ آفتاب کا ایک شعر: چھوڑتے وقت اس نے سوچا نہیں یہ مری آخری محبت تھی میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس مشاعرہ کی صدارت منصور آفاق نے کی اور مہمان خصوصی شارق جمال تھے۔ پتہ چلا کہ وہ بیوروکریٹ ہیں۔ اچھی بات ہے بیوروکریٹ ادب اور شاعری میں آئیں تو ادب کی خدمت بھی ہو جاتی ہے اور ادیبوں اور شاعروں کی پذیرائی بھی۔ ایک زمانے میں مرتضیٰ برلاس بہت فعال رہے۔ شارق جمال بھی اچھے لگے: شکستہ پا ہیں کوئی آسرا بناتے ہیں مٹا کے خود کو جو ہم اک خدا بناتے ہیں ہمیں شعور حقیقت نہیں سو ہم اکثر فریب جنبش بال ہما بناتے ہیں اور پھر منصور آفاق کا خوبصورت شعر: وہ ترا اونچی حویلی کے قفس میں رہنا یاد آئے تو پرندوں کو رہا کرتا ہوں اس کے بعد ہارون رشید تھے اور ہم۔ انہوں نے حرمت حرف پر بات کی اور اپنے مخصوص انداز میں تاریخی حوالے دیتے ہوئے کہا کہ لفظ ہی توقیر کا باعث بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تخلیق کار کو اپنے حوالے سے بہت غور کرنا چاہیے اور فیصلہ کرنا چاہیے کہ اسے کہاں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بہت غور کیا اور نثر لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے تو وہ نثر میں بھی شاعری ہی کرتے ہیں۔ مشاعرے کے بعد ہم چائے کے لیے اکٹھے ہوئے تو وہاں بڑی مزے مزے کی باتیں ہوئیں۔ اچھا لگا کہ ہمارے پیارے دوست اسلم کولسری زیربحث آئے۔ یوں کہیں کہ انہیں ہم نے یاد کیا۔ ہارون صاحب کہنے لگے کہ ایسا نفیس شخص انہوں نے نہیں دیکھا۔ میں نے اسلم کولسری کے کئی شعر سنا دیئے کہ ان کے ساتھ ہماری بہت زیادہ رفاقت رہی۔ دو شعر دیکھئے: یار کو دیدہ خوں بار سے اوجھل کرکے مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے یعنی ترتیب کرم کا بھی سلیقہ تھا اسے اس نے پتھر بھی اٹھایا مجھے پاگل کر کے اس کے بعد مداحوں کے ساتھ سیلفیاں اور تصاویر کا سیشن تھا۔ بہرحال یہ ایک یادگار مشاعرہ اور نشست تھی۔ آج کل کے حالات ایسی صحت افزا سرگرمیاں ضرور ہونی چاہیے۔ آخر میں ان پیارے پیارے بچوں کا ذکر جنہوں نے بہت اعلیٰ نظام کی اور مہمانوں کے ساتھ ساتھ رہے۔ وہ تھے طاہر مختار، انیس، علی حسن اور زارا امجد۔ دو شعروں کے ساتھ اجازت: مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو رونا یہی تو ہے کہ اسے چاہتے ہیں ہم اے سعد جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو