برصغیر پاک و ہند کی تاریخ جو درسی کتب اور قصے کہانیوں کے ذریعے انگریز سرکار نے زبانِ زدعام کی، اس کو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہاں پر آباد قوموں کو اپنے ماضی سے برگشتہ، حال سے غیر مطمئن اور مستقبل سے مایوس کرنا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757ء میں جب نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال میں اپنا اقتدار قائم کر لیا تو اس کے سامنے مغلیہ ہندوستان صرف ایک قطعہ زمین نہیں تھا بلکہ مسلمان حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی، صوفیائے کرام کے حُسنِ سلوک اور مسلمان اشرافیہ کی تہذیبی یلغار نے اسے ایک اکائی میں تبدیل کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل ’’متحدہ ہندوستان‘‘ نامی کسی چڑیا کا نام تاریخ میں نظر نہیں ملتا۔ پورا علاقہ ’’ہند‘‘ نامی ایک خطہ کہلاتا تھا جس پر پانچ سو سے زیادہ راجے اپنے اپنے علاقوں میں آزادانہ حکمرانی کرتے تھے۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے چار ہزار سالوں میں ’’ہند‘‘ کا یہ خطہ صرف 360 سال کیلئے ایک متحدہ سلطنت کی صورت اکٹھا ہوا۔ موریا دَور جو 321 سے 185 قبل مسیح تک 236سال پر محیط تھا اور ’’گپتا‘‘ دورِ حکومت جو 543 سے 319 قبل مسیح تک 124 سال پر پھیلا ہوا تھا۔ باقی پونے چار ہزار سال یہ سرزمین ہمیشہ منقسم ہی رہی۔ ہر خطے کا اپنا ’’دیوتا‘‘، ’’دیوی‘‘ تھی اور ان دیوتائوں کا ایک مقدس خاندان ہوتا تھا جس کی اپنے اپنے خطے میں پوجا ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندو دیوئوں اور دیوتائوں کی فہرست مرتب کی جائے تو وہ تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ بنتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں متحدہ ہندوستان کا آغاز 25 جون 1206ء کو اس وقت ہوا، جب شہاب الدین محمد غوری نے ’’تران‘‘ کی دوسری جنگ میں ہندو مہاراجوں کی مشترکہ فوج کو شکست دے کر قطب الدین ایبک کو اس علاقے کا انچارج مقرر کیا، جس نے دِلّی کو پایۂ تخت بنایا اور یوں ’’ہند‘‘ کے ایک درخشاں اور زریں باب کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد کا ہندوستان اپنی گزشتہ چار ہزار سالہ تاریخ سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت نے یوں اس پر اپنا رنگ چڑھایا کہ آج جو کچھ بھی ہندوستان کی ثقافت میں نظر آتا ہے، اس میں اکثریت مسلمان حکمرانوں، صوفیائ، اشرافیہ اور عام آدمی کا عطاء کردہ ہے۔ کھانوں کی فہرست اُٹھائیں، بریانی، پلائو، نہاری، کوفتے، کباب، زردہ، پائے، شامی کباب، غرض کونسی ایسی کھانے کی چیز ہے جس پر مسلمانوں کی حسِ ذائقہ اور لطافت کی چھاپ نہ لگی ہو۔ لباس میں کُرتا پاجامہ اور شلوار، شیروانی، اچکن، غرارہ، لہنگا، تنگ پاجامہ سب پہناوے مسلمان اپنے ساتھ لائے اور پھر یہاں کے لوگوں نے اختیار کر لئے، ورنہ برصغیر میں ایک اَن سلی ساڑھی، دھوتی اور سلوقہ عام لباس تھا۔ بنارس اور کلکتہ سے لے کر کابل تک اوّل تو ساری کی ساری تاریخی عمارتیں مسلمانوں کے عہدِ درخشاں میں ہی تعمیر ہوئیں، لیکن دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ ان عمارات نے تعمیرات کے فن میں جو ایک ایسے خوبصورت باب کا اضافہ کیا ہے اس کا دُور دُور سے بھی کوئی تعلق اس دھرتی کے فنِ تعمیر سے نہیں تھا۔ محرابیں، مینار، گنبد، دالان، وسیع صحن اور پھر ان سب کی تزئین و آرائش کے فن نے تعمیراتی آرٹ کو ایک لازوال حُسن عطا کیا۔ ٹائل ، موزیک پینٹنگز، سنگِ مرمر میں قیمتی پتھروں کا کام (Pietra Dura)، کاشی کاری، مینا کاری، منبت کاری، غرض فنونِ آرائش کی ایک طویل فہرست ہے، جو عمارتوں کو دلکش بنانے سے متعلق ہیں اور جنہیں دُنیا بھر میں صرف مسلمانوں نے ہی متعارف کروایا۔ تمام اصناف سخن جو اس وقت ہندوستان کے ادب کی پہچان ہیں، انہیں بھی مسلمان یہاں لے کر آئے۔ غزل، رباعی، مثنوی، مرثیہ، افسانہ، ناول، غرض اظہار کے سارے خوبصورت طریقے مسلمانوں کی مرہونِ منت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت دیا شنکر نسیم بھی اگر مثنوی ’’زہر عشق‘‘ تحریر کرتا ہے تو پہلے اللہ کی حمد، پھر رسول اکرمﷺ کی نعت اور پھر حضرت علیؓ کی منقبت کے بعد قصے کا آغاز کرتا ہے۔ موسیقی اگرچہ کہ مسلمانوں کا طرۂ امتیاز نہیں تھا مگر پھر بھی مسلمان حکمرانوں کے درباروں میں موسیقی کی پذیرائی ہوتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ رباب، بربط، ستار اور طبلہ جیسے بے شمار آلاتِ موسیقی مسلمانوں نے متعارف کروائے۔ امیر خسرو کے کلام اور موسیقی کو نکال دیا جائے تو شادی کی تقریبات پھیکی ہو جائیں۔ قوالی کا فن جو آج عالمی پذیرائی کا حامل ہے، چشتی صوفیاء کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اس کا اتنا اثر ہوا کہ آج بھی روز رات کو بنارس میں گنگا کو سُلانے کیلئے جو دیپ پوجا ہوتی ہے اس میں بھجن کا انداز قوالی سے ماخوذ ہے۔ یہ وہ تمام تہذیبی اور ثقافتی مہارتیں اور رواج تھے جن کی وجہ سے کلکتہ سے کابل تک یہ خطہ ایک پوری قوم نظر آتی تھی۔ انگریزوں کو مسلمانوں کا یہی ’’متحدہ ہندوستان‘‘ ورثے میں ملا تھا۔ یہاں ان کا مقابلہ ایک عظیم تہذیب، ایک بہترین معاشی قوت اور شاندار ماضی رکھنے والی مسلمان طرزِ حکمرانی سے تھا۔ مسلمانوں نے یہاں صدیوں سے آپس میں برسرِ پیکار راجائوں، مہاراجائوں کے سپاہیوں کو ایک منظم فوج میں بدلا، نظام عدل و انصاف قائم کیا، زمینوں کی پیمائش سے لے کر حقوقِ ملکیت کا تعین کیا، سڑکوں، ڈاک خانوں، مہمان سرائیوں کا جال بچھایا اور سب سے اہم بات یہ کہ جب انگریز کے قدم اس سرزمین پر اُترے تو یہاں علم و آگہی کا عالم دُنیا بھر سے زیادہ تھا۔ انگریزوں کے ہی مرتب کئے گئے اعداد و شمار جنہیں مشہور ہندو مؤرخ ’’دھرم پال‘‘ نے اپنے پانچ حصوں پر پھیلے ہوئے وسیع تاریخی اثاثے "Beautiful Tree" میں جمع کیا ہے۔ اس کے تیسرے حصے کا نام "Indigenous Indian Education in the 18th Century" (اٹھارہویں صدی میں ہندوستان کا دیسی تعلیمی نظام) ہے۔ اس حصے میں اس نے وہ تمام مردم شماری اور سکولوں میں اساتذہ کی تعداد، قصبوں اور گائوں میں سرکاری اتالیق کی نوعیت اور ان کے مشاہرے درج کئے ہیں۔ ان تمام رپورٹوں کا لبِ لباب یہ ہے کہ مغلوں کے آخری دور میں بھی ہندوستان میں شرح خواندگی پچانوے فیصد سے زیادہ تھی۔ ظاہر ہے اس ساری تہذیبی، ثقافتی، معاشی اور معاشرتی ترقی کے سرخیل مسلمان ہی تھے جو اس معاشرے میں ایسے ضم ہوئے تھے کہ الگ دکھائی نہیں دیتے تھے، کیونکہ پورے ہندوستانی معاشرے نے مسلمانوں کے رہن سہن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز نے ہندوستان فتح کرنے کے آغاز سے ہی اس خطے کی تہذیب و ثقافت میں پوری کوشش سے دراڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کا صدیوں سے قائم تعلیمی نظام جس میں کوئی دینی مدرسہ نہیں تھا بلکہ دین اور دُنیا ایک ہی چھت تلے اور ایک ہی اُستاد کے زیر سایہ پڑھائے جاتے تھے۔ ان تمام مدارس کو جہاں جہاں انگریز کا اقتدار قائم ہوتا، مکمل طور پر بند کر دیا جاتا۔ انتہائی سوچ بچار کے بعد 1781ء میں انگریز نے کلکتہ میں پہلا خالص دینی مدرسہ کھولا، جہاں پہلی دفعہ اسلامی اصول قرآن و حدیث و فقہ کے ساتھ ساتھ متنازعہ ترین تاریخ بھی پڑھائی جانے لگی۔ تاریخ کبھی بھی مسلمان مدارس کا مضمون نہیں تھا۔ (جاری ہے)